دیوبند کا فکری منہج
تحریر: مفتی عبید انور شاہ قیصر
دیوبند کا امتیاز یہ ہے کہ وہ کسی نئی فکر کی دعوت نہیں دیتا. فکرِ دیوبند تسلسل ہے فکرِ اسلاف، فکرِ أصحاب اور فکرِ صاحبِ انوار، امامِ اشراف و ابرار (صلی اللہ علیہ و سلم) کا. دیوبندیت کا خلاصہ ہے "ما أنا عليه و أصحابي" پر بقا و جماؤ. دیوبند کی ساری جد و جہد، ساری کوششوں کا یہی محور ہے اور یہی واحد مقصد. دینی افکار سے لے کر سیاسی مسائل تک، معاشی تصورات سے لے کر سماجی امور و معاملات تک، ہر چیز کو پرکھنے جانچنے رد و قبول کرنے کا یہی ایک پیمانہ ہے "ما أنا عليه و أصحابي". اس اصول کے اجراء و تطبیق میں دیوبند سے منسوب اشخاص و افراد میں زمان و مکان، علم و فہم کے تفاوت کے ساتھ لازماً اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن تمام تر اختلافات کے باوجود مجموعی فکر تجدد، انحراف اور روایت و اجماع کے انکار سے منزہ و پاک ہے. خود کو دیوبند سے منسوب کرنے والا کوئی شخص ایسی فکر پیش کرتا ہے جو "ما أنا عليه و أصحابي" کے دائرہ سے خارج ہے تو وہ چاہے کتنا ہی دعویٰ کرے وہ فکر دیوبند کی فکر قطعاً نہیں ہو سکتی، خود حلقۂ دیوبند کے باخبر علماء ایسی فکر کی تردید کرتے اور اغلاط کی نشاندہی کرتے ہیں. یہاں معاملہ دوسرے بعض فرقوں کی طرح نہیں ہے جہاں بانیٔ جماعت کی ذات ہی تنہا دلیل ہے. ان کے فرمائے ہوئے سے اختلاف کا مطلب جماعت سے بغاوت سمجھا جاتا ہے. یہاں ہر شخصیت اصول کے ماتحت ہے اور ہر فرمودہ قابلِ نقد و تحقیق ہے. حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ دیوبند کی خصوصیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "اس درس گاہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے اختلافی مسائل کے بجائے توحید و سنت پر اپنی توجہ مرکوز کی (اور یہ وہ وراثت و امانت ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی، شاہ اسماعیل شہید اور سید احمد شہید کے وسیلہ سے اس کو ملی اور ابھی تک اس کو عزیز ہے. دوسری خصوصیت اتباع سنت کا جذبہ اور فکر ہے. تیسری خصوصیت تعلق مع اللہ کی فکر اور ذکر وحضوری اور ایمان و احتساب کا جذبہ ہے. چوتھا عنصر اعلاء کلمة اللہ کا جذبہ اور کوشش اور دینی حمیت و غیرت. یہ چار عناصر مل جائیں تو دیوبند بنتا ہے. اگر ان میں کوئی عنصر کم ہوجائے تو دیوبندیت ناقص ہے. فضلائے دارالعلوم دیوبند کا یہی شعار رہا ہے اور وہ ان چار چیزوں کے جامع رہے ہیں. " (کاروان زندگی، 2/311-312)
دیوبند نے ان ہی اصول کے دائرہ میں رہتے ہوئے دینیات، سیاسیات، سماجیات، کلامیات، تصوف، دعوتِ دین، ردِ فرقِ ضالہ ہر میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں. بہت سے حضرات جن کی فکر پر عقلیات کا غلبہ ہے اور عملیات سے ان کا شعور و احساس اس درجہ اور اس طرح مربوط نہیں ہے جس طرح سے ہونا چاہیے، وہ بے عمل فکر کو اہم سمجھ کر علم و عمل سے عبارت عملی فکر کو ہلکا سمجھتے یا بالکلیہ نظر انداز کر دیتے ہیں. اس کی ایک بہت واضح مثال دیکھیے. حضرت مولانا الیاس صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے مسلمانوں کی زبوں دینی حالت کی اصلاح اور ان میں پھیلتے ارتداد کے مقابلے کے لیے بہت سادہ اور قدیم وضع کی ایک تحریک کی بنا ڈالی. اس میں علمی موشگافیوں، منطقی چونچلوں اور کلامی پیچیدگیوں کی جگہ عوام کی سطح و ضرورت کے مطابق چند بنیادی امور پر توجہ دی گئی. زمانہ شاہد ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں ارتداد کا وہ فتنہ دب گیا، ہزاروں نہیں، لاکھوں لوگوں کی کایا پلٹ گئی، نماز روزہ سے دور لاکھوں افراد کی اصلاح ہوئی، جہالت دور ہوئی اور دنیا کے بعید ترین ممالک اور خطوں میں اس تحریک کے مثبت اثرات ظاہر ہوئے. اپنی ہمہ گیری و وسیع اثرات کے لحاظ سے یہ تحریک عالمِ اسلام کی سب سے بڑی تحریک قرار دی جا سکتی ہے، جس کا اقرار دیوبند سے وابستگی نہ رکھنے والوں کو بھی ہے. اب فکری سرمایہ کی تلاش میں سرگرداں اذہان کو اس تحریک میں کوئی نیا پیغام، نئی بات، کوئی جدید فکر ہرگز نہیں ملے گی اور اس حد تک یہ بات درست بھی ہے لیکن اس سے اس تحریک کی عظمت، ضرورت، انفرادیت، اس کے اثرات اور امتیاز میں ذرہ برابر کمی نہیں آتی. یہ تحریک دانشوروں، شاعروں، نقادوں کے ان ہزاروں فکری سرمایوں سے بہتر و برتر ہے جو محدود سطح پر بھی کوئی نمایاں انقلاب و تبدیلی نہ لا سکے. لفظوں کے امام اور فکر کے سلطان تو وہ شاید بن گئے مگر دنیا میں تو وہ کیا تبدیلی لاتے، بیشتر تو اپنی ذاتی زندگی کی اصلاح نہ کر سکے! بڑے نامور، مفکر اعظم شمار ہونے والی قد آور شخصیات کے آفاقی افکار کا عملی نتیجہ بسا اوقات صفر نکلا ہے. فکر جتنی بھی اعلی ہو اگر وہ مثبت عمل پر منتج نہ ہو تو وہ ذہنی پراگندگی سے زیادہ کچھ نہیں. بقول حضرت الاستاذ مولانا نور عالم خلیل امینی رحمۃ اللہ علیہ: "اس سے زیادہ افسوس اور شرم کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ اخلاقیات پر لکھنے والے اور کتاب الأخلاق تصنیف کرنے والے اکثر بنیادی اخلاق سے بھی محروم ہوتے ہیں" (مفہوم)
اقبال کی اس بات کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے کہ خود شناسی کا یہ مقام انہیں حاصل ہے اور وہ یہ اعتراف کرنے سے نہیں شرماتے کہ...
اقبالؔ بڑا اُپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتارکا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا
ایک دوسری مثال دیکھیے. فکرِ دیوبند کے شارح و ترجمان حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمات کا دائرہ کس قدر وسیع ہے. اگر صرف ایک پہلو تصوف و خانقاہی سلسلے سے ان کی خدمات کا مختصراً جائزہ لیں تو کسی انوکھی جدید فکر کی ایجاد کے بغیر انہوں نے قدیم و اصولی بنیادوں پر تجدد کا مقابلہ کیا. وہ اصول جن میں لوگوں نے طویل زمانے سے غیر اسلامی افکار، رسومات، بدعات کی آمیزش کی ہوئی تھی ان کی تطہیر و تنقیح فرمائی. صدیوں سے تصوف کے نام پر چلی آ رہی خرافات کی قلعی کھولی اور ہر چیز کو اس کی اصل پر لوٹایا. وہ غلط چیزیں جو مسلمانوں میں نسلوں سے جڑ پکڑے ہوئے تھیں بلکہ وہ غیر اسلامی امور جنہیں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد خالص اسلام باور کرتی آ رہی تھی، ان سب کی اصلاح فرمائی. ان کی اس خاص خدمت کی قدر و قیمت صرف اس بات سے بھی بخوبی سمجھی جا سکتی ہے کہ مولانا سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ جیسے محقق و فکرِ اسلامی کے ممتاز عالم نے اپنا شیخ تسلیم کیا اور ان کی خدمت میں جنینِ نیاز کو خم کیا. مولانا دریابادی رحمہ اللہ جیسے جہاں دیدہ، مشرقی و مغربی علوم میں خاص مہارت کے حامل اور فلسفہ میں اپنی نظیر آپ جیسے فردِ فرید نے انہیں کو پیر و مرشد بنایا اور ان کے دستِ مبارک پر بیعت کرتے ہوئے عقلیت کی بھول بھلیاں سے شریعت و حقیقت کی سیدھی راہ پر گامزن ہوئے. آخر عمر میں انہیں بھی اعتراف کرنا پڑا کہ "مدت سے فلسفہ کا مطالعہ بہت کم ہوگیا ہے، اتنے دنوں پڑھا، کچھ بھی حاصل نہ ہوا، بجز الفاظ واصطلاحات کے، پیاز کی طرح چھلکے ہی چھلکے، اب بجز بہت سی مخصوص کتابوں کے فلسفہ بالکل نہیں پڑھتا، صرف قرآن مجید اور اس کی شرحیں کافی ہیں، یا پھر دل بہلانے کے لیے ادبیات".
(خطوطِ ماجدی، از مولانا عبدالماجد دریابادی رحمہ اللہ).
مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے خاص تزکیہ و احسان کے میدان میں شریعت کے قواعد کی پابندی کے ساتھ جس طرح نفسیاتی اصولوں کی رعایت کی وہ انہیں کا حصہ ہے. ان کے حکیم الامت کہلانے کی وجوہات میں ایک وجہ یہ بھی ہے. ان نفسیاتی اصولوں کا انداز و رنگ صراحتاً و ضمناً و اشارتا مولانا دریابادی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب "حکیم الامت: نقوش و تاثرات" میں دیکھا جا سکتا ہے اور بالاستقلال و بالتحقيق ان اصولوں کو "مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بطور ماہر نفسیات" (از الماس اشرف) وغیرہ کتب سے سمجھا جا سکتا ہے.
ہم نے نہایت اختصار کے ساتھ صرف تفہیم کی غرض سے دیوبند کی عظیم شخصیات میں سے صرف دو کی خدمات پر محدود روشنی ڈالی ہے، ورنہ تو اس بزم کا ہر فرد اپنی ذات میں ایک انجمن اور دائرۃ المعارف ہے. ہم نے یہ بھی کوشش کی ہے کہ بات کو اصطلاحی الفاظ اور پیچیدہ تعبیرات سے بوجھل نہ کیا جائے اور بات سمجھنا قارئین کے لیے آسان ہو. ہم نے جان بوجھ کر علم کلام کے حوالے سے حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے تجدیدی کام اور سر سید و شبلی کے مقابلے ان کے کام کی برتری و پختگی کو ذکر نہیں کیا، مدارسِ اسلامیہ کی بنا اور اس کے ذریعے تاریخ اسلام کے بے نظیر تعلیمی انقلاب کو موضوعِ بحث نہیں بنایا، علامہ کشمیری رحمہ اللہ کے آفاقی افکار و نظریات، ڈاکٹر اقبال سے لے کر مولانا گیلانی سے ہوتے ہوئے ڈاکٹر حمید اللہ تک ان کے تجدیدی نظریات کے غیر معمولی اثرات پر بھی ہم نے قلم نہیں اٹھایا اور نہ اقبال کے ان اعترافات کو یہاں ذکر کیا ہے جن میں وہ یہ کہتے ہیں کہ "فلسفہ جدید میں علامہ نے جو کچھ فرمایا ہے، حق یہ ہے کہ آج یورپ کا بڑے سے بڑا فلسفی اس پر ایک لفظ کا اضافہ نہیں کر سکتا" (مفہوم)... ہم نے علامہ کشمیری کے حوالے سے مصطفی صبری جیسے محقق کا یہ قول بھی تحریر سے اصلًا خارج رکھا ہے کہ "میں نہیں جانتا تھا کہ فلسفہ وکلام کے دقائق کا اس انداز سے سمجھنے والا اب بھی کوئی دنیا میں زندہ ہے". نیز ان کی اس بات کی تفصیل بھی ترک کر دی ہے جس میں وہ علامہ کے رسالے "ضرب الخاتم" کے حوالے سے کہتے ہیں: "إني أفضِّل هذہ الوریقات علی جمیع المادۃ الذاخرۃ في هذا الموضوع وإني أفضلها علی هذہ الأسفار الأربعة للصدر الشیرازی."
(یعنی جتنا کچھ آج تک اس موضوع پر لکھا جاچکا ہے، اس رسالہ کو اس سب پر ترجیح دیتا ہوں اور اس اسفارِ اربعہ (جو آپ کے سامنے رکھی ہوئی تھی) پر بھی اس رسالہ کو ترجیح دیتا ہوں).
ان سب چیزوں اور ان کے علاوہ متعدد اشخاص اور بے شمار پہلوؤں کو تحریرِ ھذا میں ترک کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں صرف یہ سمجھانا ہے کہ دیوبند کو اپنے بنائے مخصوص، نہایت محدود و ناقص فکری سرمایہ کے پیمانے پر جانچنا ہی غلط ہے. فکرِ دیوبند کے بارے میں یہ کہنا کہ دیوبند کے پاس کوئی فکر نہیں ہے، وہ فکری سرمایہ سے خالی ہے، شدید غلط فہمی پر مبنی ہے. دیوبند کسی نئی فکر کو لے کر آیا ہی نہیں ہے، وہ تو ایک اصولی فکر کی حفاظت، تشہیر، تبلیغ و ترویج کے لیے آیا ہے. اس غرض کے لیے وہ اصولی دائرہ میں رہتے ہوئے ہر اصلاح اور تبدیلی کے لیے کوشاں و مستعد رہا ہے. اور اس میں اس حد تک ترقی و علمی رفعت حاصل کی ہے کہ مشاہیرِ عالم اس کا اعتراف کرتے ہیں. ہاں یہ اظہار بھی لازم ہے کہ خود حلقۂ دیوبند کے اندر شامل افراد کی جانب سے بعض سیاسی، ملکی، دنیاوی اسباب کی بنا پر اس علمی روایت و تجدیدی کارناموں میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور کئی بار عقل و شعور کے افلاس کا شکار افراد زمامِ قیادت سنبھال لینے کے بعد خود رکاوٹ بن گئے. لیکن اس سے فکرِ دیوبند پر حرف دشنام بلند کرنا درست نہیں ہو جاتا. دیوبند کا اصل مسئلہ یہ ہوا کہ اسلاف کی میراث و فکری سرمایہ کو اخلاف ترقی تو کیا دیتے، باقی بھی نہ رکھ سکے. جن اساطین کے کاندھوں پر فکرِ دیوبند کی عمارت کھڑی ہے ان کی کتابوں پر تحقیق اور ان کے افکار کی تنقیح، تسہیل، باضابطہ تدوین تو کیا ہوتی وہ کتابیں ہی عموماً دستیاب نہیں ہیں. درس و تدریس کے نظام سے بالکلیہ غائب ہیں. خود فضلائے دیوبند دیوبند کے فکری سرمایہ سے تہی دامن ہو کر نکل رہے ہیں. ہائے افسوس کہ غطیم ترین فکری سرمایہ بے توجہی کے عذاب میں گرفتار ہے اور اس کے مخفی رہ جانے کے سبب کیسے کیسے ذہین لوگ غلط فہمیوں کا شکار ہیں.
میری کوتاہ نظر میں حضرت نانوتوی رحمہ اللہ پر مرتب انداز میں معیاری کام ان کے انتقال کے ڈیڑھ سو سال گزرنے کے بعد اب شروع ہوا ہے (اس سے مراد حکیم فخر الاسلام صاحب کا کام ہے، اگرچہ اس میں ابھی کچھ اصلاحات کی گنجائش ہے)، باقی اکابر بالخصوص علامہ کشمیری پر ان کے شایانِ شان کام کے لیے شاید ابھی سو، پچاس سال مزید انتظار کرنا پڑے گا!!
0 تبصرے