65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط نمبر (1)


 یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ 

قسط نمبر (1)

ناظم و متولی مظاہرعلوم وقف سہارنپور 


(ناصرالدین مظاہری)


مظاہر علوم کا اختلاف کیا ہوا ایسا لگا کہ پوری دنیا ہی تقسیم ہوگئی۔ بڑے قدیم اہلِ تعلق نے اپنے نظریے تبدیل کرلیے۔ جو وقف مظاہر علوم یعنی قدیم مظاہر علوم کا حمایتی ہوا، تو اس نے جدید مظاہر علوم میں جانا اور ملنا جلنا چھوڑ دیا۔ اور جو جدید کا حامی و ہمدرد ہوا، تو اس نے قدیم والوں سے علیک سلیک بھی بند کردی۔


سچ کہوں تو یہ بات صرف عوام تک محدود نہ رہی، خواص بھی اس ابتلاء میں مبتلا نظر آئے۔ حتیٰ کہ بڑی بڑی تنظیمیں، جماعتیں اور ادارے اس نظریاتی جنگ میں دونیم ہوگئے۔ خط و کتابت بھی چھوٹ گئی، جلسے جلوس میں شرکت بھی رک گئی۔


بات اگر یہیں تک محدود ہوتی تو بھی غنیمت تھی، لیکن عوامی سطح پر تشدد پھوٹ پڑا۔ یہ تشدد یک طرفہ تھا۔ اسی لیے قدیم مظاہر علوم کے استاذ حضرت مولانا سید وقار علی بجنوری فرمایا کرتے تھے کہ:


> "ملک کے حالات اتنے خراب ہوگئے تھے کہ بعض شہروں کی مساجد میں انھیں قیام کرنے کی اجازت تک نہیں دی گئی، فٹ پاتھ پر رات گزارنی پڑی۔"


خیر! یہ تفصیل کا وقت نہیں، بتانا یہ مقصود ہے کہ فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین کے برادر زادے حضرت مولانا محمد سعیدی نے ایسے حالات میں بھی کبھی اپنے اساتذہ کے خلاف ایک حرف زبان سے نہیں نکالا۔


ان کے اساتذہ حضرت مولانا محمد اللہ بھی تھے، شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری بھی تھے، حضرت مولانا سید محمد عاقل بھی تھے، اور حضرت مولانا سید محمد سلمان بھی۔ ہر استاذ کا نہ صرف وہ مکمل احترام کرتے تھے بلکہ اپنے بعض اسباق میں برملا اپنے ان اساتذہ کی شان میں تعریفی و ستائشی کلمات بھی ارشاد فرماتے تھے۔


چنانچہ ایک بار فرمایا:


> "حضرت مولانا سید محمد سلمان صاحب پڑھانے میں مشکوٰۃ کا حق ادا کردیتے ہیں۔"


حضرت مولانا شیخ محمد یونس جونپوری کے بارے میں تو اتنی باتیں بتاتے تھے کہ باقاعدہ ایک مضمون لکھا جاسکتا ہے۔ حضرت مولانا محمد اللہ کی نزاکت و نفاست کے قصے مزے لے لے کر سناتے تھے۔ حضرت مولانا سید محمد عاقل سہارنپوری سے بھی الحمدللہ تعلق و عقیدت میں کبھی فرق نہ آیا۔


اسی لیے جب آپ دورۂ حدیث شریف کے استاذ بنائے گئے، تو حضرت مولانا سید محمد عاقل سہارنپوری اور حضرت مولانا سید محمد سلمان سہارنپوری دونوں حضرات سے تحریری اجازت حدیث حاصل کی۔ اجازت حدیث کا متن میں نے شیخ الادب حضرت مولانا اطہر حسین کے بارے میں ماہنامہ "آئینہ مظاہر علوم" کے خصوصی شمارے میں پسماندگان کے ذیل میں حضرت ناظم صاحب کے تذکرہ کے تحت شامل و شائع کردیا ہے۔


لاک ڈاؤن سے قبل اپنے صاحب زادے اور موجودہ نائب ناظم مفتی بدران محمد سعیدی کی دعوتِ ولیمہ میں جن گراں قدر شخصیات کو شرکت کی دعوت دی گئی، ان میں یہ دونوں حضرات بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ اور قارئین کرام کو یہ جان کر خوش گوار مسرت ہوگی کہ دونوں حضرات دفتر مدرسہ مظاہر علوم وقف میں ایک زمانے کے بعد تشریف لائے۔


حضرت مولانا سید محمد سلمان صاحب رحمہ اللہ کو ان کے دولت کدہ پر لینے کے لیے میں خود ہی حاضر ہوا۔ حضرت پہلے سے ہی تیار تھے۔ ضعف کے باوجود ایک موٹر سائیکل سے دفتر تک تشریف لائے۔ بڑی خوشی کا اظہار فرمایا۔


اب سنئے! اور بڑوں کے ان اختلافات سے کچھ حاصل کیجیے۔ کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب رحمہ اللہ کے کسی صاحب زادے کی شادی تھی۔ دعوت نامہ حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ کے پاس بھیجا گیا۔ اور بڑی دور اندیشی، حکمت، بصیرت اور مصالح کے پیشِ نظر اسی کارڈ کے ایک حاشیہ پر حضرت نے اپنے قلم و دستخط سے لکھا:


> "ولیمہ میں شرکت کے لیے تکلیف نہ کریں، ولیمہ کا کھانا آپ کے گھر پہنچ جائے گا۔"


بڑوں کی باتیں اور حکمتیں بڑے جانیں۔ ہم کوئی علامہ شامی نہیں ہیں کہ جزئیات کی تلاش میں سرگرداں ہوں۔


باتیں اتنی ہیں کہ مضمون طویل ہوتا جارہا ہے اور طبیعت کہتی ہے کہ لکھتے جاؤ، کچھ نہ کچھ لوگ تو پورا مضمون ضرور پڑھیں گے۔


حضرت مولانا سید محمد عاقل صاحب رحمہ اللہ ادھر دو تین سال سے وقتاً فوقتاً زیادہ بیمار رہنے لگے تھے۔ کبھی سہارنپور، کبھی حیدرآباد اور کبھی میرٹھ بسلسلہ علاج مقیم رہے۔


یہ ان دنوں کی بات ہے جب آپ حیدرآباد میں زیر علاج تھے۔ ناظم صاحب نے مجھے بلوایا اور فرمایا:


> "بھئی میرے استاذ مولانا سید محمد عاقل کے بارے میں ابھی پتہ چلا ہے کہ حیدرآباد میں زیر علاج ہیں، جلدی سے دو ٹکٹ فلائٹ کے نکلوا لو اور چلو عیادت کے لیے چلنا ہے۔"


میں نے مولانا سید احمد ہاشمی صاحب سے پوری تفصیل معلوم کی تو پتہ چلا کہ کئی دن سے وہاں زیر علاج ہیں اور اب تو وہاں سے واپس سہارنپور آنے والے ہیں۔


خیر! حضرت مولانا محمد عاقل صاحب کے انتقال سے پہلے ان کے دولت کدہ پہنچ کر عیادت کی۔ اور پھر چند ہی روز گزرے ہوں گے کہ انتقال کی افسوسناک خبر سننے کو ملی۔


> انا للہ و انا الیہ راجعون


شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری کی شفقتیں اس قدر تھیں کہ لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے۔ حضرت سے ملاقات کے لیے فجر کے وقت حاضر ہوتے تھے۔ ایک دن بتانے لگے کہ:


> "آج میں حضرت سے ملنے گیا تو دیکھا کہ حضرت حمام کے پاس گرے ہوئے تھے، بڑی مشکل سے میں اٹھا کر ان کے بستر تک پہنچایا۔"


حضرت مولانا محمد سعیدی جب نئے نئے مظاہر علوم وقف کے ناظم بنائے گئے تو آپ نے پورے عملے کو اصول و قوانین پر سختی کے ساتھ عمل پیرا ہونے کی ہدایت کی۔ کسی نے حضرت شیخ محمد یونس جونپوری سے جا کر شکایت کی کہ:


> "حضرت! مولانا سعیدی بہت سختی کرتے ہیں، آپ انھیں سمجھائیں۔"


تو حضرت نے فرمایا:


> "بھائی! میں نے بڑی دعاؤں سے محمد کو مانگا ہے۔"


پھر جب ناظم صاحب خدمت میں پہنچے تو بڑے پیار سے فرمایا:


> "محمد! زیادہ سختی نہ کرو۔"


حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحب کی مدرسہ مظاہر علوم وقف پر توجہات دار جدید میں جانے کے بعد بڑھتی ہی رہیں۔ بڑی مہنگی کتابیں، بہت زیادہ کتابیں اور ہر موضوع کی کتابیں آپ مدرسہ مظاہر علوم وقف کے کتب خانے میں بھیجتے رہے۔ اسی طرح بڑی بڑی رقمیں بھی بھیجتے رہے۔


اور حیرت تو تب ہوئی جب آپ نے شہر سہارنپور میں اپنا ایک شاندار مکان جو دو منزلوں پر مشتمل ہے، وہ مدرسہ مظاہر علوم وقف کو وقف کر دیا۔ اور اسی پر بس نہیں کیا بلکہ "پاجرانہ" نامی ایک گاؤں میں حضرت شیخ محمد یونس رحمۃ اللہ علیہ کی کاشت کی ایک بڑی زمین تھی جو آپ نے مدرسہ مظاہر علوم وقف کو باقاعدہ تحریری طور پر وقف فرمائی۔


اس کے علاوہ اگر کوئی قابل ذکر شخص حضرت شیخ محمد یونس صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پہنچتا اور وہ کوئی رقم حضرت کے حوالے کرتا، تو حضرت کبھی کبھی فرما دیتے:


> "بھئی! ہمارے غریب مدرسے کا بھی خیال رکھا کرو۔"


اور غریب مدرسے سے مراد مدرسہ مظاہر علوم وقف سہارنپور ہی ہوتا تھا۔


بہرحال! یہ چند سطور ارتجالاً لکھی گئی ہیں، ان شاء اللہ مکمل گفتگو پھر کبھی۔


(پانچ محرم الحرام چودہ سو سینتالیس ھجری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے