65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (12)


 یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط نمبر 12)

(ناصرالدین مظاہری)


حضرت ناظم صاحب طلبہ کے کھانے کے سلسلہ میں بھی بڑے فکرمند رہتے تھے۔ وہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتے۔ روٹیاں کچی ہونے یا چاول نیم پختہ ہونے کی شکایت پر ان کا غصہ دیدنی ہوتا تھا۔ البتہ وہ یہ چاہتے تھے کہ طلبہ اپنی شکایت براہِ راست دفترِ اہتمام کو بتائیں، لیکن طلبہ بے چارے اتنے جری کہاں ہوتے ہیں! اس لیے وہ کسی نہ کسی ملازم کو ذریعہ بناتے۔


اسی پس منظر میں ایک معتبر شخص نے بتایا کہ ایک بڑے تعلیمی ادارے میں مطبخ کا تنخواہ دار عملہ نہیں ہے، بلکہ یہ ذمہ داری ٹھیکیدار کے سپرد ہے۔ کھانے کی کمیت، کیفیت اور دیگر شرائط سب تحریری طور پر طے ہوتی ہیں۔ یہ بات سن کر حضرت ناظم صاحب نے بھی ایک ٹھیکیدار کو بلوا کر مفصل بات چیت کی، معاہدے کیے اور یہ نظام نافذ کر دیا۔


اس نئے نظام سے پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک دن مجھے درسگاہ سے بلوایا۔ میں پہنچا تو آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور میں ساتھ ہو لیا۔ دفتر سے نکل کر دارِ قدیم کی طرف چل پڑے۔ راستے میں فرمایا:

“مطبخ کے گوشت کی شکایت مل رہی ہے، وہیں چل رہے ہیں۔”


مطبخ کے دفتر پہنچ کر کھانا منگوایا گیا تو مطبخ کے ایک ملازم نے ایک پلیٹ میں اچھی اچھی بوٹیاں، بگھار والا سالن اور عمدہ روٹیاں پیش کیں۔ میں نے فوراً کہا:

“یہ کھانا نہیں چیک کرنا ہے، چیک کرنے کا طریقہ میں بتاتا ہوں۔”


چنانچہ ایک طالب علم اپنا کھانا لیے جا رہا تھا، میں نے اسے بلایا اور اس کا کھانا حضرت ناظم صاحب کے سامنے رکھ دیا۔ ناظم صاحب کو میری یہ حرکت—یا کہہ لیجیے یہ ادا —پسند آگئی، اگرچہ کسی اور کو شاید پسند نہ آتا۔ پھر اس طالب علم کو دوبارہ مطبخ سے کھانا لینے بھیج دیا گیا۔


کھانے کو چکھنے کے بعد گوشت میں کمی اور ذائقہ میں کمزوری پائی گئی۔ حضرت نے اصلاح کی ہدایت دی۔ آپ کا انداز یہ تھا کہ پہلے مشورہ دیتے، پھر حکم دیتے اور اگر پھر بھی اصلاح نہ ہوتی تو اپنے اختیارات استعمال کرتے۔

---

یہاں ایک اہم واقعہ نقل کرتا ہوں تاکہ دیگر اربابِ مدارس کے لیے بھی سبق ہو۔


مطبخ کے ناظم و نگراں حضرت مولانا نذیر احمد صاحب رحمہ اللہ تھے۔ ایک دن گوشت کی شکایت ملی کہ بہت خراب ہے۔ آپ نے ایک طالب علم سے کھانا منگوا کر دیکھا تو واقعی گوشت پکانے کے لائق نہیں تھا۔ صبح سویرے ناظم مطبخ کو بلایا گیا، تحقیق کی گئی، قصاب کو بھی طلب کیا گیا۔ اس نے غلطی کا اعتراف کر لیا۔


حضرت ناظم صاحب نے فوراً دفتر مالیات کو حکم دیا کہ اس گوشت کی رقم مولانا نذیر احمد کی تنخواہ سے کاٹ لی جائے۔


مولانا نذیر احمد تقریباً پوری زندگی مطبخ کے ذمہ دار رہے، لیکن یہ واقعہ پہلی بار پیش آیا۔ بڑی منت سماجت کی گئی مگر حکم حاکم برقرار رہا۔ اس کے بعد گوشت ہی کیا، کسی چیز میں بھی شکایت نہ آنے دی گئی۔ ناظم صاحب فرمایا کرتے تھے:


“مدرسہ نے ہر دفتر کا ذمہ دار الگ الگ اسی لیے مقرر کیا ہے اور اس کو معقول مشاہرہ دیا جا رہا ہے۔ اس لیے جواب دہی کارکنان سے نہیں، ذمہ داران سے ہی ہوگی۔”

---

بعد ازاں حضرت ناظم صاحب رحمہ اللہ نے اپنے نام سے باقاعدہ قیمتا کھانا جاری کروا لیا تاکہ تازہ ترین کیفیت کا براہِ راست علم ہوتا رہے۔ اس کے علاوہ وہ ہر ماہ بڑی خطیر رقم مطبخ میں جمع کرتے تھے۔ یہ رقم ان طلبہ کے لیے ہوتی تھی جو بہت غریب و نادار تھے اور مدرسہ کے ضابطہ کے مطابق ان کا کھانا جاری نہ ہو پاتا۔

---


ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے