65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (13)

 


یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ


" وہ ضابطہ تھا یہ رابطہ ہے۔"


(قسط نمبر 13)


(ناصرالدین مظاہری)


حضرت ناظم صاحب سے میرا تعلق ان کی نظامت ملنے کے بعد نہیں ہوا۔ نظامت تو انھیں 2003ء کے اواخر میں ملی تھی، لیکن میرا تعلق ان سے 1993ء سے ہی قائم ہوگیا تھا۔ اصل میں میرا مزاج بالکل کھلا ہوا ہے، یعنی میں زیادہ دیر اپنے اوپر مصنوعی سنجیدگی طاری نہیں رکھ پاتا۔ میں حدِ ادب کے ساتھ کسی بھی بزرگ سے نہ صرف تعلق قائم کرلیتا ہوں بلکہ بزرگوں کو بھی میری اس عادت سے کبھی شکایت نہیں رہی۔


اس سلسلے میں اگر دو ایک مثالیں بیان کروں تو یہ آپ بیتی ہوجائے گی۔ اس لیے صرف اتنا بتانا ضروری ہے کہ مجھے حضرت ناظم صاحب سے تعلق ان کے ناظم ہونے کی حیثیت سے رہا ہی نہیں۔ ان سے تعلق تو مظاہر علوم کے استاذ اور حضرت الاستاذ مولانا اطہر حسین کی اولاد ہونے کی وجہ سے استوار ہوا تھا اور الحمدللہ تادمِ واپسیں خوش گوار تعلقات برقرار رہے۔


سفر و حضر کا ساتھ رہا۔ حرمین شریفین میں بھی ان کی صحبت سے فیضیاب رہا۔ البتہ وہ چونکہ حرمِ مکی میں رکنے اور ٹھہرنے کے بجائے قریب ہی جدہ شہر میں اپنے مخلص دوست اور مرید بھائی محمد حیدرآبادی کے یہاں قیام کرتے تھے، اور میری ہمیشہ یہی تمنا رہتی تھی کہ قیام ہو تو مکہ یا مدینہ میں ہو، باقی سب بے کار ہے۔


بہرحال! آمدم بر سرِ مطلب۔ فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین رحمہ اللہ نے مجھے 1997ء کے اواخر میں حکم فرمایا کہ شوال میں یہیں آجانا۔ چنانچہ حکم کے مطابق آگیا اور الحمدللہ عزت و نیک نامی کی سعادت میسر آئی۔ اس میں میرا کوئی عمل دخل نہیں تھا، جو کچھ تھا وہ میرے والدین کی دعائیں اور حضرت مفتی صاحب کی شفقتیں تھیں۔


یہ اس وقت کی بات ہے جب حضرت مفتی صاحب کے انتقال کو چند سال ہوچکے تھے اور حضرت مولانا محمد سعیدی ناظم تھے۔ مجھے ماہنامہ آئینہ مظاہر علوم سہارنپور کا مدیرِ تحریر بنایا گیا اور حضرت مولانا محمد ریاض الحسن ندوی مدظلہ مدیرِ مسئول مقرر ہوئے۔


پریس کا کام میں ہی انجام دیتا تھا اور اس کے لیے کبھی دہلی، کبھی دیوبند اور کبھی سہارنپور کے خوب چکر لگاتا۔ ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ چیز اچھی اور کفایتی ہو۔ اس لیے ٹائٹل چھپوانے دہلی جاتا تھا۔ ریلوے اسٹیشن پر قلی کبھی نہیں کیا کہ مدرسہ کے پیسے بچ سکیں۔


ایک دن شام چار بجے شالیمار ایکسپریس پرانی دہلی ریلوے اسٹیشن سے پکڑنی تھی۔ ٹریفک کی وجہ سے اسٹیشن پہنچنے میں تاخیر ہورہی تھی۔ رکشے سے اترا اور ٹائٹل کا بنڈل اپنے سر پر لاد کر ٹرین پکڑنے کے لیے زینے سے گزر کر پلیٹ فارم پہنچا۔ ٹرین میرے سامنے ہی آئی۔ میں جنرل ڈبہ کی طرف ٹرین کے ساتھ دوڑ رہا تھا اور وزنی بنڈل میرے سر پر تھا کہ اچانک ٹائٹل کی رسی ٹوٹ گئی اور چکنے ٹائٹل دور تک بکھرتے چلے گئے۔


اب دو مسئلے کھڑے ہوگئے: ایک یہ کہ اگر کسی راہ گیر کا پیر ٹائٹل پر پڑ گیا تو سیدھا پھسل کر ٹرین کے نیچے جاپہنچے گا۔ دوسرا یہ کہ مزید رسی چاہیے تھی، جو اسٹیشن پر ملنا مشکل تھا اور دہلی کی بھیڑ الگ۔ اپنی بے بسی پر میری آنکھوں سے آنسو آگئے۔ جلدی جلدی تمام ٹائٹل جمع کیے اور جیسے تیسے ٹرین میں پہنچ گیا۔ سفر تو آسانی سے کٹ گیا مگر یہاں پہنچ کر پھر رسی کی ضرورت آن پڑی، جو نہیں ملی۔


تمام ٹائٹل تھوڑے تھوڑے کرکے ایک محفوظ جگہ رکھا، پھر رکشہ والے کو بلایا اور کہا کہ رکشہ تو اسٹیشن کے اندر نہیں جاسکتا، کم از کم آپ ہی میرے ساتھ چلیں اور مدد کریں۔ خیر! بے چارہ اندر آیا، کچھ ٹائٹل اس نے اٹھائے اور کچھ میں نے۔ یوں ہم رکشہ تک پہنچ گئے۔


یہ کہانی حضرت ناظم صاحب کو سنائی تو انھوں نے سر پکڑ کر جھکا لیا اور کچھ بولے نہیں۔ پھر ایک دن فرمایا:

"سہارنپور اور دہلی میں ٹائٹل کی طباعت کے صرفہ میں مجموعی فرق کتنا ہوتا ہے؟"


میں نے عرض کیا: "کم از کم ڈھائی ہزار روپے دہلی میں سستا چھپتا ہے۔"


فرمایا: "دہلی آنا جانا، رکشہ، کھانا اور اپنی تنخواہ جوڑ کر دیکھو اور حساب لگاؤ۔ پھر بتاؤ کہ اگر سہارنپور میں ہی چھپنے لگے تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ آپ کو چھٹی بھی نہیں لینی پڑے گی۔ یعنی مدرسہ میں آپ اپنا کام بھی کرتے رہیں گے اور وقت نکال کر پریس بھی جاسکیں گے۔"


میں حیرت زدہ رہ گیا، کیونکہ جس پہلو پر ناظم صاحب نے مجھے توجہ دلائی، اس پر تو کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ واقعی ماننا پڑے گا کہ ناظم تو ناظم ہوتا ہے۔ اس کی نظر بڑی اور وسیع ہوتی ہے۔ وہ چوطرفہ پہلوؤں پر دھیان دیتا ہے اور میں یک طرفہ سوچے جارہا تھا۔


اس کے بعد رسالہ سہارنپور ہی میں چھپنے لگا، البتہ خصوصی شمارے بے شک دہلی یا دیوبند سے چھپوائے گئے کیونکہ لمبا کام لمبے اخراجات اور قطرہ قطرہ دریا بن جاتا ہے۔


مدرسہ کے سفراء اور فراہمیِ مالیات کے لیے دور و نزدیک جانے والے حضرات کو ایک ایسے وزیٹنگ کارڈ کی ضرورت تھی، جس میں مدرسہ کے اکاؤنٹ نمبرات مع بنیادی تفصیلات، فون، ای میل اور ایڈریس درج ہوں۔ میں نے سوچا کہ یہ کام تو بہت کم خرچ کا ہے، یعنی بمشکل چھ سات سو روپے میں کئی ہزار چھپ جائیں گے۔ اس لیے میں نے ایک خوبصورت کارڈ مذکورہ تفصیلات کے ساتھ چھپوا دیا۔ سفراء بہت خوش ہوئے۔ چھ سو روپے کا خرچ آیا، میں نے کارڈ کا بنڈل اور بل دونوں حضرت کی خدمت میں رکھ دیے۔


ناظم صاحب نے کارڈ دیکھ کر مسرت کا اظہار کیا، اور پھر بل دیکھا تو واؤچر پر دستخط کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا:

"اجازت کے بغیر کارڈ چھپوائے ہیں، اس لیے مدرسہ ان کارڈوں کے پیسے نہیں دے گا۔"


میں نے عرض کیا:

"حضرت! دو سال پہلے آپ نے ہی فرمایا تھا کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں میں اجازت مت کیا کرو، جس میں مدرسہ کا فائدہ محسوس ہوتو کرلیا کرو۔ اس لیے میں نے یہ کارڈ چھپوائے ہیں اور اس میں کوئی کمی یا غلطی بھی نہیں ہے۔"


فرمایا:

"بالکل ٹھیک ہے، لیکن اجازت ضروری تھی۔"


خیر! لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے دیرینہ ترین تعلقات بھی امورِ نظامت میں کبھی حارج یا آڑے نہیں آئے۔ اس زمانے میں مجھے چھ سو روپوں کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا، جب میری تنخواہ ساڑھے تین ہزار روپے تھی۔ میں نے اس واقعہ کا تذکرہ کسی سے نہیں کیا، ورنہ لوگ اظہارِ ہمدردی کم اور غیبت زیادہ کرنے لگتے۔


پھر ایک دن رات کے وقت ناظم صاحب میرے پاس آئے اور مجھے ایک کلو لیچی اور چھ سو روپے عنایت فرمائے اور کہنے لگے:

" وہ ضابطہ تھا یہ رابطہ ہے۔"


ایک مرتبہ زین العابدین دہلوی پریس والے نے رسالہ بہت ہی گھٹیا کاغذ پر چھاپ دیا، جب کہ روپے اچھے کاغذ کے گئے ہوئے تھے چنانچہ ناظم صاحب کو رسالہ دکھایا تو فرمایا کہ زین العابدین سے بات کرو اور کہو کہ جس کاغذ کی بات ہوئی تھی اور جس کاغذ کے روپے دئے گئے ہیں وہی کاغذ چاہیے چنانچہ اللہ کا شکر ہے اگرچہ چند دن زیادہ لیٹ ہوگیا مگر زین العابدین نے دوبارہ رسالہ چھاپ کر سہارنپور بھیجا ورنہ خطرہ تھا کہ کہیں جھیلنے نہ پڑجائیں۔


(جاری ہے)


 نو ربیع الاول چودہ سو سینتالیس

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے