یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط نمبر چودہ)
(ناصرالدین مظاہری)
حضرت مولانا محمد سعیدی نہایت زیرک، ہوشمند، خوددار، غیور، باحمیت، حق گو اور پرگو تھے۔ وہ زود گو بالکل نہ تھے، فضول بات نہیں کرتے تھے۔ سچ کہنے میں وہ کسی لومۃ لائم کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ طلبِ زر اور حبِّ جاہ بالکل نہیں تھی۔ شہرت اور ناموری سے انھیں وحشت ہوتی تھی۔
کہیں جاتے تو نمایاں اور ممتاز جگہ بیٹھنے سے احتیاط کرتے تھے۔ کسی سے اتنا تعلق نہ رکھتے کہ وہ پریشان ہو جائے یا اس کی بے وفائی دل کی تکلیف کا باعث بنے۔ کسی پر اتنا اعتماد بھی نہ کرتے کہ کوئی رازداری کا فائدہ اٹھانے اور بلیک میلنگ شروع کردے۔
کسی کو اتنے زیادہ اختیارات بھی نہیں سونپتے تھے کہ بندہ شترِ بے مہار ہوجائے، اور نہ کسی کو زیادہ چھوٹ دیتے تھے کہ انسان آپ کی شرافت اور چشم پوشی پر جری اور نڈر ہوجائے۔ وہ سبھی سے قریب بھی رہتے اور دور بھی، کیونکہ وہ وقت کے تقاضوں، ہواؤں کے رخ، زمانے کی گردشوں اور ماحول و حالات کی نزاکتوں سے بدرجہ اَتَم واقف و باخبر تھے۔
مدرسہ کا کون سا کام کس سے لینا ہے، اس میں بڑا تجربہ رکھتے تھے۔ مدرسہ کے لئے ان کی فکرمندی اور دل سوزی نہایت ہی قابلِ تعریف تھی۔
بشیر بدر یاد آیا:
یوں ہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر میں رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلہ سے ملا کرو
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو
آپ کی نظامت کو کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایک دن خزانچی مولانا محمد ارشاد صاحب مرحوم حاضرِ خدمت ہوئے اور کہنے لگے کہ:
"دو دن بعد تنخواہیں دینی ہیں اور خزانہ بالکل خالی ہے۔"
ناظم صاحب نے کہا:
"کوئی بات نہیں ہے، سب کچھ اللہ تعالیٰ کے قبضہ و انتظام میں ہے، وہی غیب سے کچھ نظم اِن شاء اللہ کردے گا۔"
اسی دن آپ کو ٹہرکی ضلع میرٹھ کسی دعوت میں جانا تھا۔ جناب قاری ذوالفقار سفیر برائے حلقہ دہلی آپ کے ہمراہ تھے۔
ٹہرکی میں ایک صاحب آپ کے خوب چاہنے والے ملے اور کہنے لگے:
"حضرت! میں نے اپنا باغ آٹھ لاکھ روپے میں فروخت کیا ہے۔ میری عادت بینک میں جمع کرنے کی نہیں ہے اور میں کچھ دن کے لئے بیرون ملک جانا چاہتا ہوں، یہ امانت آپ رکھ لیجیے۔"
ناظم صاحب نے فرمایا:
"میں امانت نہیں رکھ سکتا، البتہ قرض دو تو رکھ سکتا ہوں۔ اور واپسی کی ترتیب یہ ہے کہ آپ کو جب ضرورت ہو تو دس پندرہ دن پہلے خبر دے دینا۔"
چنانچہ یہ خطیر رقم آپ سہارنپور لے آئے، مالیات کے حوالہ کی، اور اس طرح واقعی اللہ تعالیٰ نے غیب سے نظم فرما دیا۔
(جاری ہے)
0 تبصرے