65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (15)

 


یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ


(قسط نمبر 15)

(ناصرالدین مظاہری)


حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ کو اختلافات بڑھانے کے بجائے اختلافات مٹانے میں دلچسپی تھی۔ البتہ ادارہ کے لئے وہ کسی بھی نقصان کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ اگر بات ان کی ذات اور ذاتی امور سے متعلق ہوتی تو ہر نقصان جھیلنے کے لئے تیار رہتے تھے۔


وہ کسی کے اختلاف میں ہرگز نہیں پڑتے تھے۔ اسی لئے صلح و مصالحت کے تعلق سے وہ پہلے حضرت مولانا محمد ریاض الحسن ندوی مدظلہ کو آگے رکھتے تھے۔ پھر جب حضرت مولانا ظہور احمد قاسمی رحمہ اللہ ادارہ کو مل گئے تو ناظم صاحب کو مزید سہولت ہوگئی۔


اب یہ راز راز میں رکھنا جرم سمجھتا ہوں کہ محترم محرم علی پپو جیسی شہر کی سیاسی و سماجی شخصیت کو عسکری مسجد کے سلسلہ میں گرفتار ہونے پر ناظم صاحب بے انتہا بے چین تھے۔ دونوں طرف کے لوگ مظاہر علوم وقف کے ناظم صاحب کے پاس بار بار آتے تھے، مگر ناظم صاحب کا صرف یہی کہنا تھا کہ:


"مصالحت کی شروعات محرم علی پپو صاحب کی جیل سے باعزت رہائی سے شروع ہوگی۔"


چنانچہ محرم علی صاحب کی رہائی کے لئے "دامت درمے، قدمے، سخنے" ہر تعاون کے لئے جو ٹیم بنی، وہ آپ کی پس پردہ کوششوں کا ثمر آور نتیجہ تھی۔ اور پھر ماشآء اللہ محرم علی پپو رہا ہوکر اپنوں میں پہنچے۔


عسکری مسجد کے سلسلہ میں سہارنپور میں بڑا فساد پھوٹ پڑا تھا۔ مسجد کی داستان لکھنا یہاں میرا مقصود نہیں ہے، نہ ہی داستان لکھنا محمود و مسعود ہے۔


جمعیۃ علماء ہند میں اختلاف پیدا ہوا۔ ایک طرف حضرت مولانا سید محمد ارشد مدنی مدظلہ تھے، دوسری طرف حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی مدظلہ۔


ناظم صاحب کا کہنا تھا کہ اگر حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب دارالعلوم دیوبند کے منصبِ تعلیمات سے دست بردار ہوکر صرف جمعیۃ کی طرف جھکاؤ اور میلان رکھنے لگیں تو دارالعلوم کا ناقابلِ تلافی نقصان ہوگا۔


جمعیۃ کو زیادہ قابل و فاضل، محدث و فقیہ کی ہرگز ضرورت نہیں ہے، اور حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی مدظلہ جمعیۃ کی باگ ڈور سنبھالنے کا استحقاق بھی رکھتے ہیں، تجربہ بھی رکھتے ہیں، سیاسی اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں، میڈیا کو مسکت اور مطمئن کرنے کا فن و ہنر بھی جانتے ہیں۔


اس لئے ناظم صاحب فرمایا کرتے تھے کہ:

"دارالعلوم کو حضرت مولانا محمد ارشد مدنی مدظلہ کی ضرورت ہے اور جمعیۃ کو حضرت مولانا سید محمود مدنی مدظلہ کی۔"


حالانکہ اگر آپ ماضی میں جھانکنے کی کوشش کریں تو مظاہر علوم اور اکابرِ مظاہر علوم، حتی کہ مظاہر علوم کی تقسیم کے بعد بھی، دونوں اداروں کے اربابِ انتظام جمعیۃ کے تمام تر عہدوں سے بالکل الگ تھلگ رہے ہیں۔


لیکن چونکہ جمعیۃ ملت کا ایک اثاثہ ہے، اور اس اثاثہ سے محبت ایمان کا خاصہ ہے، اس لئے حضرت ناظم صاحب نے اخیر تک نہ تو جمعیۃ کے بارے میں کوئی لفظ تقریری یا تحریری بولا و لکھا، نہ ہی جماعتِ تبلیغ کے سلسلہ میں کبھی کوئی بیان جاری کیا۔


جماعت تبلغ کے دو حصے بخئے ہو جانے کے باوجود آپ یہی کہتے رہے کہ:

"بھئی! جب جماعت دو حصوں میں بٹ ہی گئی ہے تو ہم کس کی مخالفت کریں اور کیوں کریں؟ حال یہ ہے کہ کام تو دونوں طرف ہورہا ہے۔"


اسی لئے کبھی حضرت مولانا احمد لاٹ صاحب مدظلہ مظاہر علوم وقف تشریف لائے تو ان کا استقبال کیا، اور کبھی حضرت مولانا محمد سعد کاندھلوی تشریف لے آئے تو ان کے لئے پلکیں بچھادیں۔


ناظم صاحب رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:

"دونوں دھڑے کام تو مظاہر علوم کا ہی کررہے ہیں۔ میری کوئی مخالفت کرے تو یہ اس کا ظرف ہے، میں کیوں کسی کی مخالفت کروں؟"


(جاری ہے)


نوٹ : آج دہلی میں ہوں کوئی خاص مصروفیت نہیں ہے اس لئے ہے درپے دو قسطیں لکھنے کی توفیق مل گئی ہے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے