65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (16)



 یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ


(قسط نمبر 16)


(ناصرالدین مظاہری)


پاکی، صفائی اور نظافت و طہارت کے باب میں میں نے آپ کو بہت ہی اعلیٰ مقام پر فائز پایا ہے۔ جن لوگوں نے آپ کو قریب سے دیکھا ہے وہ تو جانتے ہی ہیں، اور جنھوں نے دور سے دیکھا ہے وہ بھی گواہی دیں گے کہ آپ ہمیشہ صاف ستھرے کپڑے پہنتے تھے، اچھے اور معیاری جوتے پہنتے تھے، خوبصورت اور شاندار ٹوپی اور مہنگے چشمے آپ کی پہچان تھے۔


آپ دورانِ گفتگو بارہا حدیثِ نبوی پڑھتے تھے:

"إن الله يحب أن يرى أثر نعمته على عبده"

(اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے کہ اس کی دی ہوئی نعمت کا اثر اس کے بندے پر ظاہر ہو)


اور یہ روایت بھی پڑھتے تھے:

"مَن أنعم الله عليه نعمة فإن الله يحب أن يرى أثر نعمته على خلقه"

(جس پر اللہ نے کوئی نعمت عطا کی، اللہ پسند کرتا ہے کہ اس کی مخلوق پر اس نعمت کا اثر نظر آئے)


آپ چاہتے تھے کہ بندہ سراپا شکر بن جائے، اس کی زبان اور اس کے جسم سے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اظہار ہو۔ آپ اس بات کو ناشکری تصور کرتے تھے کہ آدمی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے مالا مال ہو اور پھر بھی پھٹے حال، پراگندہ بال اور گندے میلے کپڑے پہنے۔


آپ استنجا کے سلسلہ میں بھی بہت حساس تھے۔ استنجا کے وقت مٹی کے ڈھیلوں کے قائل تھے، لیکن چونکہ اس زمانے میں مٹی کے ڈھیلوں کی دستیابی اور مستعمل ڈھیلوں کو پھینکنے کا بڑا مسئلہ ہو گیا ہے، اس لیے آپ ٹشو پیپر کے زبردست مؤید تھے۔ آپ ہمیشہ ٹشو پیپر استعمال کرنے کے بعد پانی استعمال کرتے تھے۔ بلکہ اگر کہیں ٹشو پیپر نہ ملتا تو کافی دیر تک استنجاخانے میں رہتے اور مکمل سکون اور اطمینان کے بعد ہی باہر آتے۔


ہم لوگوں میں سے جو حضرات ٹشو پیپر کا استعمال نہیں کرتے تھے اور جن کی عمر چالیس پچاس سال سے اوپر ہوتی، تو آپ ان کو مصلے پر نہیں بڑھاتے تھے۔ آپ کہا کرتے تھے کہ ٹشو پیپر بہت اچھی ایجاد ہے، اس نے بڑی مشکل حل کر دی ہے۔ آپ عموماً اپنی جیب میں دو چار پیپر رکھا کرتے تھے۔ اسی طرح کھانے کے وقت آپ اپنی پلیٹ میں موجود پانی کے قطروں کو بھی پیپر سے صاف کر لیا کرتے تھے۔


ڈسپوزل گلاس اور پلیٹ سے آپ کو نفرت تھی۔ کھانے کے لیے ہمیشہ ایسی جگہ منتخب کرتے تھے جہاں سے کھانے کی پلیٹیں، ڈشیں اور ڈونگے نہ گزر سکیں۔ کیونکہ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا تھا کہ آپ کو نمایاں جگہ بٹھا دیا جاتا اور اوپر سے ڈونگے لانے لے جانے والے مستقل ٹینشن دیتے رہتے۔


ایک دفعہ میرٹھ کے ایک قصبے میں گوشت ملی ہوئی دال کا ڈونگا آپ کے قریب بیٹھے ایک شخص کے اوپر گر گیا ، بے چارے کے سارے کپڑے معصفر اور "مزعفر" ہوگئے۔ آپ نے مسکرا کر فرمایا:

"اب تو آپ ہی ڈونگا بن گئے۔"


میرٹھ ہی کے اصیل پور میں مولوی طیب اجراڑوی کی بہن کا نکاح تھا طیب آپ کا خاکہ زاد بھائی ہے کھاتے وقت سالن کا ڈونگا خود ناظم صاحب پر گرا اور کپڑے گل گلزار ہوگئے ،آپ کی پیشانی پر کوئی شکن نہیں آئی، وہیں کپڑے بدلے ، دھلے گئے اور پھر اپنے۔ کپڑے پہن کر واپسی ہوئی۔


اس کے باوجود وہ صاحب ہٹے نہیں اور ناظم صاحب اس کی قربت کی وجہ سے مستقل ڈرتے رہے کہ کہیں اس کی دال آپ کے کپڑوں تک نہ پہنچ جائے۔


اگر کوئی چپل زور سے رکھتا تو آپ آپ اپنا سر پکڑ لیتے، اگر کوئی چپل ٹیرھی رکھ دیتا تو تکلیف ہوجاتی، اگر کوئی دائیں ہاتھ سے چپل اٹھالیا لیتا تو وہیں ٹوک دیتے۔


(جاری ہے)


(13/ربیع اول 1447)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے