یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط نمبر 17)
(صرف بالغوں کے لئے)
(ناصرالدین مظاہری)
آپ بڑے ہی سنجیدہ اور نہایت ہی خشک ہرگز نہ تھے۔ ہم مزاج لوگ ملتے تو آپ کھل اٹھتے تھے بلکہ بسا اوقات خود ہی بے تکلف احباب کو چھیڑ چھاڑ کر ایسا ماحول طاری کرلیتے تھے۔ جب آپ سفر میں ہوتے تو باغ و بہار نظر آتے اور جیسے ہی مسندِ اہتمام پر پہنچتے تو حلیم و بردبار ہوجاتے۔
ایک دفعہ آپ حجِ بیت اللہ کے مبارک سفر پر تھے۔ دہلی سے محمد تابش، کھجوری میرٹھ سے آپ کے خالہ زاد مولانا عبدالماجد، قاری ذو۔۔۔۔ر وغیرہ آپ کے ہم حجرہ و ہم سفرہ تھے۔
عبدالماجد یا تابش کو اٹھاتے اور کہتے:
"او بھئی! اٹھ جاؤ، ناشتہ شروع ہوچکا ہے، جلدی سے ناشتہ لے آؤ۔"
قاری صاحب سو رہے تھے، عبدالماجد بھی لیٹے ہوئے تھے اور تابش کمرہ کے باہر گیا ہوا تھا۔ ہوا کیا کہ قاری صاحب بالکل چت لیٹے ہوئے مست جوانی کی نیند میں تھے اور اتفاق سے خود تو خوابیدہ مگر مکمل "ایستادہ"۔ حضرت کی نظر پڑ گئی، جلدی سے عبدالماجد کو جگایا اور کہا:
"قاری صاحب کا موبائل فل نیٹ ورک میں ہے!"
عبدالماجد کی نظر بھی قاری صاحب کی طرف اٹھ گئی اور "فل نیٹ ورکنگ" پر دھیان بھی چلا گیا۔ دونوں ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے، مگر قاری صاحب اپنی دنیا میں مست و مگن تھے۔ اتفاق سے اسی دوران تابش دہلوی کمرہ میں داخل ہوا تو اس سے فرمایا:
"عبدالماجد! قاری صاحب کا وائی فائی پاسورڈ کے بغیر ہے۔"
تابش بھی بہت ہنسا۔ اب ہنسنے کی آواز کے درمیان ہی قاری صاحب کی آنکھ کھل گئی تو حضرت نے فرمایا:
"ارے قاری صاحب! تم تو سو رہے تھے اور ان لوگوں نے تمہارے وائی فائی سے کنیکٹ کیا ہوا تھا۔"
بے چارے قاری صاحب سیدھے سادے کہنے لگے:
"اوہو! میں بھی سوچ رہا تھا کہ میرا ڈاٹا کہاں جارہا ہے، اب پتہ چلا کہ یہ لوگ وائی فائی کا پاسورڈ جانتے ہیں اور میری غفلت میں میرا ڈاٹا خرچ کرلیتے ہیں۔"
اس پر سارے ہی لوگ اور بھی ہنسنے لگے۔ قاری صاحب کو تعجب بھی ہوا کہ اس میں ہنسنے والی تو کوئی بات ہے نہیں، یہ اتنا کیوں ہنستے ہیں۔ اور ان لوگوں نے قاری صاحب کو بتایا بھی نہیں۔ بعد میں تابش یا عبدالماجد نے بتایا تب قاری صاحب پر گھڑوں پانی پھر گیا، نہایت شرمندہ ہوئے اور گھنٹوں کمرے میں داخل نہیں ہوئے۔
اسی حج کے سفر میں تھے۔ دہلی سے جہاز نے پرواز بھری۔ آپ کے بغل میں ایک نوجوان پینٹ شرٹ والا بے چارہ کام کے سلسلہ میں جدہ یا کسی اور جگہ جارہا تھا اور وہ کئی سال سے وہاں کام کررہا تھا۔ خیر، اس نے بڑے ہی سادہ دیہاتی لب و لہجہ میں حضرت سے پوچھا:
"حافظ جی! تم کہاں جارہے ہو؟"
ناظم صاحب نے کہا:
"بس جی! سعودیہ جارہا۔"
وہ بولا:
"یہاں کیا کرتے ہو؟"
ناظم صاحب نے کہا:
"کچھ نہیں، ایک مججد میں بچوں کو گھیر گھار رکھا ہے۔"
ناظم صاحب کے خالص علاقائی لب و لہجہ پر مبنی جواب سن کر لڑکا بولا:
"سعودیہ میں تو عربی بولی جاتی ہے اور تمہیں عربی آتی نہیں ہے، پھر کیا ہوگا؟ بھوکے مرجاؤ گے، کوئی پانی تک نہیں دے گا۔"
ناظم صاحب نے نہایت سنجیدگی طاری کرکے کہا:
"اوہو! پھیر کیا ہوگا؟"
اس نے کہا:
"کوئی ٹینشن نہ لو، میں تمہیں عربی سکھاتا ہوں۔ دیکھو! جب کھانا کھانا ہوا کرے تو بولنا 'اک کل' (کاف مشدد) اور جب پانی کی ضرورت ہوا کرے تو بولنا 'مویا'۔"
ناظم صاحب پیچھے مڑے اور عبدالماجد بھائی سے کہا:
"او بھئی! دیکھو یہ جو بتارہے ہیں لکھ لو تاکہ وہاں یہی بولتے رہیں گے تو کھانا کھونا تو ملتا رہے گا۔"
عبدالماجد کہتے ہیں کہ یہ ہوائی سفر اتنی جلدی گزرا کہ پتہ ہی نہیں چل سکا۔ ناظم صاحب اپنی ہنسی پر مکمل کنٹرول رکھتے تھے، مگر عبدالماجد کی حالت ہنسی ضبط کرتے کرتے غیر ہوئی جارہی تھی۔
(جاری ہے)

0 تبصرے