65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (19)



 یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ


(قسط انیس )

(ناصرالدین مظاہری)


سچ تو یہ ہے کہ آپ نظامت کی گود میں پیدا ہوئے، نظامت کی گود میں کھیلے، نظامت کی گود میں ہی جوان ہوئے۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ ناظم صاحب کا سنِ ولادت 1389ھجری ہے مگر آپ کے تایا ابو فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین رحمہ اللہ 1385ھ میں مظاہر علوم کے نائب ناظم ہوچکے تھے۔


فقیہ الاسلام کے کوئی اولاد نہیں تھی، اس لئے ان کی ساری شفقتوں اور محبتوں کا مرکز و محور حضرت مولانا محمد سعیدی اور ان کے تمام بہن بھائی ہی تھے۔ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے الگ سے کوئی گھر بھی نہیں بنایا، ہمیشہ اپنے بھائی حضرت مولانا اطہر حسین کے گھر میں ہی ساتھ رہے۔


اس لئے کہنا چاہیے کہ نظامت کی باریکیوں اور موشگافیوں سے آپ پورے طور پر واقف تھے۔ آپ کا تقریباً 22 سالہ دورِ نظامت اتار چڑھاؤ، نشیب و فراز، اندرونی و بیرونی فتنوں اور پھر کامیابی کے ساتھ ان فتنوں کی سرکوبی ایک طویل مضمون کا تقاضا کرتی ہے۔ مگر میں ان زخموں کو کریدنا نہیں چاہتا جو مندمل ہوچکے ہیں، ان ہڈیوں کو کھولنا نہیں چاہتا جو خاک نشین ہوچکی ہیں، ان شطرنجی چالوں کو کھول کھول کر بیان نہیں کرنا چاہتا جو الحمدللہ مات پر مات کھاتی گئیں اور ادارہ عروج و ارتقا سے ہم کنار ہوتا گیا۔


حضرت مولانا محمد سعیدی مظاہریؒ کی نظامت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ وہ تختِ مظاہر علوم وقف پر بیٹھے ہوئے ایک مدبر کھلاڑی کی طرح پورے منظر کو دیکھتے اور اندرونی فتنوں اور بیرونی سازشوں کو سمجھتے تھے۔ مدرسے میں سب سے عام لیکن سب سے اہم کردار "پیدل" کا ہے۔ پیدل والا یہ طبقہ طلبہ کا ہے، جو بظاہر کمزور اور محدود نظر آتے ہیں، مگر انہی کے وجود سے مدرسے کا مستقبل بنتا اور سنورتا ہے۔ حضرتؒ نے ان طلبہ کی تربیت، ان کی حفاظت اور ان کی ترقی پر سب سے زیادہ توجہ مبذول فرمائی۔ چنانچہ یہی طلبہ آخر کار وزیر بنتے گئے اور دین و ملت کے قلعے کو سنبھالنے کے لئے نئی پود بنتے گئے۔


نظامت کے میدان میں کبھی گھوڑے کی طرح ٹیڑھی میڑھی چال بھی چلنی پڑتی ہے۔ ہر مسئلے کو سیدھی لکیر سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ مولانا کی تدبیر میں وہ گھوڑے جیسی حکمت موجود تھی، جو وقتی طور پر کچھ لوگوں کو "کج روی" نظر آئے مگر حقیقت میں سب سے مؤثر ثابت ہو۔ کبھی حالات ایسے آتے ہیں کہ اوٹ کی طرح ترچھی چال چلنی پڑتی ہے۔ کچھ فیصلے سیدھے نہیں لیے جا سکتے، بلکہ پس منظر سے اور زاویہ بدل کر کیے جاتے ہیں۔ اس کو آپ الحرب خدعۃ کے اصول پر بھی دیکھ سکتے ہیں۔ حضرتؒ نے نظامت کے پیچیدہ مسائل میں اوٹ کی یہ حکمت بھی اپنائی اور کامیابی سے ادارے کو آگے بڑھایا۔


رخ سیدھی چال کا نام ہے۔ حضرتؒ کی دیانت، اصول پسندی اور سیدھی راہ بالکل رخ کی مانند تھی۔ جو فیصلہ کر لیا، اس پر ڈٹ گئے۔ نہ دائیں دیکھا نہ بائیں، بس اصول کو سامنے رکھا۔ اور پھر وزیر، جو سب کی طاقت کا مجموعہ ہے۔ یہ دراصل خود حضرت سعیدیؒ تھے۔ کبھی رخ کی طرح، کبھی اوٹ کی طرح، کبھی گھوڑے کی جرات اور کبھی پیدل کی سادگی کے ساتھ آگے بڑھتے۔ وہ خود ایک ایسے وزیر تھے جو ہر چال میں تدبیر، ہر فیصلے میں حکمت اور ہر اقدام میں بصیرت رکھتے تھے۔


بادشاہ بظاہر کمزور ہوتا ہے، لیکن اسی کی حفاظت پر سب قربان ہوتے ہیں۔ حضرتؒ کے دور میں بادشاہ دراصل ادارے کی عزت، وقار اور ساکھ تھی۔ انہوں نے اپنی جان، اپنی نیند، اپنی راحت سب قربان کر کے بادشاہ یعنی مظاہر علوم وقف کے وقار کو بچائے رکھا۔ کبھی کبھی انہیں قلعہ بندی کرنی پڑتی تھی، یعنی اہلِ خیر، اساتذہ اور رفقاء کے حصار میں خود کو رکھ کر بڑے طوفانوں کا مقابلہ کیا۔ کبھی نازک ترین صورتحال بھی آئی، وہاں بھی انہوں نے حکمت سے قابو پالیا۔


پیدل کو وزیر بنانا دراصل وہی عظیم کارنامہ ہے جو حضرتؒ نے کیا۔ ایک عام طالب علم کو تراش خراش کر عالم، مفتی، مدرس اور مبلغ بنایا، اور اس کے ذریعہ دین کا چراغ دنیا کے کونے کونے میں روشن کیا۔ نظامت کے دوران کئی بار شاہ لگائی گئی، کئی بار مات کی سازش ہوئی، کبھی اسٹیل میٹ جیسا جمود بھی آیا، لیکن حضرتؒ نے صبر و حکمت سے ہر مرحلہ جیت میں بدل دیا۔


سچ کہوں تو وہ ہر وقت اپنوں کی منافقت اور غیروں کی سیاست سے چوکنا رہتے تھے۔ وہ صرف دفاع پر یقین نہیں رکھتے تھے بلکہ اقدام کا بھی حوصلہ رکھتے تھے۔ انہوں نے وقتاً فوقتاً کانٹا لگا کر دو دشمنوں کو ایک ہی چال میں قابو کیا ہے، کبھی پن کی حکمت استعمال کی، کبھی اسکیور سے پردے کے پیچھے والے مسائل کو ظاہر کیا، اور کبھی چھپی ہوئی مار سے مخالفین کو حیران کر دیا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اکثر گیمبٹ کی طرح وقتی قربانی دے کر لمبے فائدے حاصل کرتے۔ وہ وقتی نقصان سے گھبراتے نہیں تھے، بلکہ مستقبل کے استحکام کو سامنے رکھتے۔


وہ ایک باوقار وزیر کی طرح، ایک مدبر رخ کی طرح، ایک حکیم اوٹ کی طرح اور ایک جرات مند گھوڑے کی طرح اپنی تدبیریں چلتے گئے، اور آخرکار ادارے کو جیت کی منزل تک پہنچا گئے۔ حضرت مولانا محمد سعیدیؒ کی نظامت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ادارہ چلانا صرف کرسی پر بیٹھنے کا نام نہیں، بلکہ ایک بڑے کھلاڑی کی طرح ہر مہرے کی قدر جاننا ہے۔ وہ چھوٹے سے چھوٹے ملازم اور دربان تک کا خیال و لحاظ فرماتے تھے۔ سب پر ان کی وقتاً فوقتاً عنایات و نوازشات ہوتی تھیں۔ شاید ہی کوئی ایسا ہو جو کہے کہ اس پر کسی نہ کسی موقع پر حضرت ناظم صاحب رحمہ اللہ نے ذاتی عنایت نہ کی ہو۔


طلبہ سے لے کر اساتذہ تک، خادم سے لے کر ناظم تک، سب اپنی جگہ اہم ہیں۔ اصل جیت وہ ہے جو اصول پر ڈٹ کر، حکمت کے ساتھ آگے بڑھے اور اپنی قربانی سے ادارے کے وقار کو بچائے۔


یہ قسط ذرا طویل ہوگئی، لیکن اللہ جانتا ہے میں نے کتنوں کے جبہ و دستار اور دامن کو تار تار ہونے سے بچانے کے لئے ایسی تعبیرات اختیار کی ہیں جن کو سمجھنے میں مجھے اچھا خاصا وقت صرف کرنا پڑا ہے۔ کئی دن ناغہ کرنا پڑا، کئی بار مصالح نے قلم اور قدم کو روک کر قسم دلائی کہ:

درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای 

باز می گوئی کہ دامن تر مکن ہشیار باش


(جاری ہے)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے