یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط نمبر 18)
(ناصرالدین مظاہری)
آپ اتنے بڑے ادارہ کے ناظم و مہتمم تھے، مگر کمال کی سادگی بھی تھی۔ کبھی کبھی دورانِ سفر ٹرین میں چائے کا تقاضا ہوگیا تو پھیری کرنے والے سے چائے لے کر پی لیتے تھے اور بالکل محسوس نہیں ہونے دیتے تھے کہ چائے بدذائقہ ہے یا کم میٹھی یا پانی کی فراوانی ہے۔
مہمانوں کی ضیافت میں بھی آپ، الحمدللہ، بہت نیک نام تھے۔ چاہے دفترِ اہتمام میں ہوں یا اپنے گھر میں، مہمان نوازی میں پیش پیش رہتے تھے۔ بلکہ آپ مہمان نوازی کے معاملہ میں سنتِ ابراہیمی پر عمل پیرا رہتے تھے، یعنی عموماً ایسا ہوا کہ اگر کسی وقت کوئی مہمان شریکِ دسترخوان نہیں ہوا تو آپ نے اس وقت کھانا ہی نہیں کھایا۔
چنانچہ جمعرات کا تھا، وقت بھی عشائیہ کا تھا۔ اتفاق سے میرے قدم آپ کے گھر کی طرف اٹھ گئے۔ میں نے دیکھا کہ آپ اپنے گھر سے باہر موڑ پر اکیلے کھڑے ہیں۔ مجھے دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے:
“بہت اچھا ہوا کہ آپ آگئے، میں کچھ دیر سے یہاں کھڑا ہوں کہ کوئی ملے تو کھانا کھاسکوں۔”
چنانچہ میں بھی شریکِ دسترخوان ہوا۔ آپ کہنے لگے:
“طبیعت ہی کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ اکیلے کھانا نہیں کھایا جاتا۔”
دسترخوان پر سبھی کا خیال رکھتے تھے۔ آپ کے لئے کوئی کتنی ہی اچھی چیز بنوا کر لے آئے، وہ چیز مہمانوں کے سامنے رکھ دیتے اور اصرار بھی کرتے کہ یہ کھاؤ، مزید کھاؤ۔
طلبہ بھی عموماً آپ کے ساتھ شریکِ طعام ہوتے اور آپ ان کا بھرپور خیال رکھتے تھے۔ بارہا ایسا ہوا کہ میں بے وقت پہنچ گیا، خادم و خدام نہیں ملے، تو آپ خود ہی زنان خانے سے کھانے پینے کی کوئی چیز لے کر آجاتے اور ہرگز اسے کسرِ شان یا منافیِ عہدہ نہ سمجھتے تھے۔
آپ کو بوائلر مرغ بالکل پسند نہ تھا، پھر بھی کبھی کسی نے دعوت میں سامنے رکھ دیا تو اس کی دل جوئی کے لئے کھا لیتے تھے۔ دسترخوان پر سب سے ممتاز چیز کو آپ جلدی ہاتھ بھی نہ لگاتے تھے اور غیر ممتاز چیز پر اکتفا کرلیتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے:
“ممتاز چیز سب کی نظر میں ہوتی ہے اور سبھی کی خواہش یا کوشش ہوتی ہے کہ وہ چیز اسے مل جائے، اور یہی وقت ہوتا ہے نظرِ بد کا۔ نظرِ بد سحر سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے، کوشش کرنی چاہیے کہ کسی کو نظر لگانے کا موقع ہی مت دو۔”
آپ کی پسندیدہ چیزیں بھی عجیب و غریب تھیں: چولائی کے لڈو، ننھے بیر، موسمی سبزیاں، اُرد کی چھلی ہوئی خشک دال، گوشت، پلاؤ، بریانی وغیرہ۔ یہ سب آپ شوق سے کھالیتے تھے۔
پلیٹ کو بالکل صاف کرلیتے تھے۔ ضرورت کے مطابق کم چیز اپنی پلیٹ میں نکالتے تھے۔ زیادہ نکالنے اور بچانے کے بالکل قائل نہیں تھے۔ کہا کرتے تھے:
“اللہ تعالیٰ نے جو چیز مقدر فرما دی ہے وہ مل کر رہے گی۔”
کمال کا توکل اور توکلِ کمال کا تھا۔
جب تک آپ کی اہلیہ حیات رہیں، میں شوق سے شریکِ طعام ہوتا رہا۔ مجھے ان کے ہاتھ کی تخمِ خشخاش کی بنی ہوئی سبزی سب سے زیادہ پسند تھی۔
آپ نے اپنی رفیقۂ حیات کے انتقال کے بعد نکاح نہیں کیا۔ کبھی اکیلے میں بات کی تو کہنے لگے:
“میں اپنے بچوں کے ساتھ اس کے سوتیلے رویے سے ڈرتا ہوں۔”
آپ کی والدہ ماجدہ نے لمبی عمر پائی، وہی کھانے کی دیکھ ریکھ رکھتی تھیں۔ پھر مفتی محمد بدران سعیدی اور ان کے بعد مفتی محمد سعدان سعیدی اور وبیان سعیدی رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوگئے۔ اب دو تین دفعہ اکیلے میں باقی تینوں بچوں کے لئے رشتہ کے سلسلہ میں گفتگو کر چکے تھے۔
(جاری ہے)

0 تبصرے