یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط 20)
(ناصرالدین مظاہری)
مظاہر علوم بڑا تعلیمی ادارہ ہے۔ آئے دن لوگ آپ کی خدمتِ تدریس، ملازمت اور سفارت کی آس لے کر حاضر ہوتے تھے۔ ناظم صاحب کا معمول اس باب میں بہت عجیب و غریب تھا۔ وہ جس کو مظاہر علوم میں لانا یا بلانا چاہتے تھے تو پہلے اس استاد کے پڑھائے ہوئے طلبہ سے از راہِ گفتگو تحقیقِ حال و تفتیشِ مآل کرتے تھے۔ پھر کسی معتبر کے ذریعہ اس استاد کی درسی تقریر منگوا کر خوب سنتے اور پتا لگا لیتے کہ استاد اپنے سبق کی تیاریوں میں کن متون و شروح کا مطالعہ کرتا ہے۔
گفتگو کا انداز خالص مدرسانہ ہے یا مقررانہ؟ آپ ہمیشہ چاہتے تھے کہ تقریری انداز تدریس میں نہیں ہونا چاہیے۔ دورانِ درس خالص علمی لب و لہجہ اور وقار و متانت کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
لوگ آپ کے پاس درخواست لے کر آتے تو سب سے پہلے درخواست ہی مرکزِ توجہ ہوتی۔ درخواست کا مضمون پڑھتے، املاء اور تحریر پر توجہ دیتے، انداز کو سمجھتے، دستخط سے ہی اس کی شخصیت کو ناپتے، پھر بات چیت شروع کرتے اور بالکل ظاہر نہ ہونے دیتے کہ اس شخص کا گویا ایکسرے اور الٹراساؤنڈ بھی ہو رہا ہے۔
ویسے بھی یہ بتانا ضروری ہے کہ انٹرویو دیتے وقت بہت سی باتوں کا خیال و لحاظ رکھنا ازبس ضروری ہے۔ چنانچہ:
لب و لہجہ نرم مگر پُراعتماد ہونا چاہیے۔
آواز میں جھجک یا غرور نہ ہو۔
سنجیدگی و متانت ہو۔
بلاوجہ قہقہے یا گھبراہٹ سے پرہیز کیا جائے۔
سوال چاہے علمی ہو یا غیر علمی، ہر سوال کا جواب سوچ سمجھ کر اور ناپ تول کر دینا چاہیے۔
وقار و تمکنت اور توازن ہو۔
نہ زیادہ بناوٹی پن ہو نہ حد سے زیادہ بے تکلفی۔
خود اعتمادی نہایت ضروری ہے۔
اگر نگاہ ملانے کی ضرورت ہو تو اس میں بھی سلیقہ پن کا اظہار ہونا چاہیے۔
جواب دیتے وقت ڈگمگاہٹ نہ ہو۔
زبان پر لرزش نقصان دہ ہے۔
شخصیت کا نکھار بھی ہو۔
لباس بے داغ و غبار ہو۔
جسمانی حرکات سے شرافت ٹپکے۔
نشست و برخاست سے سنجیدگی مترشح ہو۔
الفاظ منتخب اور جملے مختصر ہوں۔
غیر ضروری باتوں یا رٹے رٹائے جملوں سے بچنا نہایت ضروری ہے، ورنہ انسان ایسی جگہ رسوا ہوتا ہے کہ کوئی سنبھالنے والا بھی نہیں ہوتا۔
داخلے اور سلام کرنے کا سلیقہ، نیز کرسی یا مسند پر بیٹھنے، ہاتھ ملانے اور الوداع کہنے میں اعتدال ہو۔
اُلجھی ہوئی شکل و صورت، گرد آلود چہرہ اور داغ دار کپڑے نقصان دے جاتے ہیں۔
جو پوچھا جائے وہی بتائیں۔
اپنی خاندانی وجاہت، شرافت اور آباء و اجداد کے قصے ہرگز نہ سنائیں کیونکہ آپ کے آباء و اجداد آپ ہی کے لئے اہم ہیں، باقی کے لئے نہیں۔
موضوع سے نہ ہٹیں۔
اپنی گفتگو میں تکرار اور تضاد سے بچیں۔
ادھر اُدھر کی نہ ہانکیں۔
ایک صاحب تدریس کی درخواست دینے کے لئے حاضر ہوئے۔ بڑی بے تکلفی کے ساتھ آلتی پالتی بیٹھ کر ناظم صاحب کی مسند پر دونوں ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ غنیمت تھا کہ درمیان میں ڈیسک تھا ورنہ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَهُ إِلَى رُكْبَتِهِ وَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ پر عمل بھی ممکن تھا۔
ناظم صاحب سے باتیں کرنے لگے اور دورانِ گفتگو ناظم صاحب کے پاس رکھی ناخن کٹر اٹھا کر اپنے ناخن کاٹنے لگے۔ یہ سب کچھ دفترِ اہتمام میں ہو رہا تھا۔ ناظم صاحب نے بہت تحمل کیا۔ چلتے وقت وہ صاحب کہنے لگے:
“تو پھر حضرت! مجھے انٹرویو کے لئے کب آنا ہے؟”
اب ناظم صاحب نے بولنا شروع کیا:
“آپ کا انٹرویو ہو چکا ہے۔ یہ جو اتنی دیر سے آپ کی گفتگو جاری تھی یہی انٹرویو تھا۔ آپ نے دفتر اہتمام میں میری اجازت کے بغیر اپنے ناخن کاٹ کر ثابت کر دیا کہ واقعی آپ تربیت سے کوسوں دور ہیں۔”
ایک صاحب میرے دوست ہیں، ردِ قادیانیت پر خوب لکھتے ہیں۔ مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ ناظم صاحب سے ملاقات کرادو۔ میں نے ملاقات کرادی۔ اچانک انھوں نے ملازمت کی درخواست کردی۔ ناظم صاحب نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا، میں کچھ نہیں بولا۔
درخواست رکھ لی گئی۔ کچھ ہی دن کے بعد ایک سفر کے دوران ہم لوگ چار باغ ریلوے اسٹیشن اترے۔ باہر نکلتے وقت وہ صاحب مل گئے اور افسوس کہ انھوں نے اس عالمِ محشر میں ناظم صاحب کا ہاتھ لیا اور کہنے لگے:
“حضرت! میں نے فلاں موقع پر درخواست دی تھی، اس کا کیا ہوا؟”
ناظم صاحب نے بڑا ضبط کیا اور باہر نکل کر گاڑی میں بیٹھتے ہوئے فرمایا:
“مفتی ناصر! کیسے کیسے لوگوں کو پکڑ لاتے ہو۔ یہ جگہ ایسی باتوں کی تھی؟”
میں نے کہا:
“میں نے ان سے درخواست کے لئے کہا ہی نہیں، اور یہ جو کچھ ہوا اس میں بھی میرا کوئی رول نہیں ہے۔ میں آپ کی اجازت کے بغیر اس طرح کی کوئی گفتگو کسی سے کرتا ہی نہیں۔”
خیر، کچھ دیر بعد کہنے لگے:
“مسند پر بیٹھ کر ہی انٹرویو نہیں ہوتے۔ اس طرح کی حرکتیں بھی انٹرویو ہی ہوتی ہیں۔ لوگ پڑھ لکھ کر فارغ تو ہوسکتے ہیں، تربیت نہیں پاسکتے۔ تربیت کے لئے کسی بزرگ کی صحبت میں رہنا بہت ضروری ہوتا ہے۔”
(بیس ربیع الاول چودہ سو سینتالیس ہجری)

0 تبصرے