یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط 21)
(ناصرالدین مظاہری)
فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین رحمہ اللہ کے دورِ اہتمام میں دینی مدارس کی تصدیقات اور کتابوں کی تقریظات کا نظام حضرت ہی کی شفقتوں کے باعث ایسا ہوگیا تھا کہ شاید ہی کوئی امیدوار ایسا ہو جو اپنے مکتب، مدرسہ یا کسی تنظیم کی تصدیق لینے آیا ہو اور محروم گیا ہو۔ اسی لئے ہمارے کانپور کے مخیرین میں یہ بات مشہور ہوگئی تھی کہ صرف دو بزرگوں کی تصدیق پر چندہ نہیں دوں گا: ایک حضرت مولانا قاری سید صدیق احمد باندویؒ، دوسرے حضرت مفتی مظفر حسین مظاہریؒ، کیونکہ یہ دونوں کسی کو بھی محروم نہیں کرتے تھے۔
حضرت مولانا محمد سعیدیؒ جب مسندِ نظامت پر متمکن ہوئے تو اس سلسلہ میں الحمدللہ مجھے بار بار بات کرنے کی توفیق ہوئی۔ مدرسہ کی طرف سے جاری شدہ تصدیق کی نوعیت اور حیثیت بتائی اور درخواست کی کہ کسی بھی غیر معروف ادارہ کو اس وقت تک تصدیق نہ دیں جب تک ہمارے مطلوبہ کاغذات پیش نہ کرے۔
چنانچہ مجھے نئے سرے سے اصول و ضوابط بنانے کا حکم ہوا۔ میں نے ایک فارم تیار کرایا، اس فارم پر خوب غور و فکر ہوا۔ پھر ایک رنگین تصدیق چھپوائی گئی جس کی نقل تیار نہ ہوسکتی تھی۔ تصدیق کا سائز بھی ایسا رکھا گیا جو عام پرنٹروں سے نکل ہی نہ سکے۔
اگر مدرسہ واقعی مدرسہ ہوتا تو لوگ مطلوبہ کاغذات جمع کردیتے اور اگر مدرسہ اس لائق نہ ہوتا تو کاغذات نہ جمع کرپاتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے مدارس تصدیق سے محروم ہونے لگے۔ بڑے ہاتھ پیر مارے گئے، بہتوں نے ناظم صاحب کو پسِ پشت برا بھلا کہنا شروع کیا، مگر معطیان نے بڑی تعریفیں کیں اور ستائشی فون کئے۔ بہت سی جگہوں پر آپ کی تصدیق طلب کی جانے لگی۔
ایک بڑا کارنامہ ناظم صاحب نے یہ انجام دیا کہ سال بھر کی تمام تصدیقات کی مکمل فہرست ملک کے دو بڑے اخبارات راشٹریہ سہارا اور انقلاب کے تمام ایڈیشنوں میں شائع کراتے تھے۔ اس فہرست پر مدرسہ کو تقریباً دو لاکھ روپے سے اوپر خرچہ کرنا پڑتا تھا۔ مدرسہ اس خرچ سے زیر بار نہ ہو، اس لئے صرف وہ مدارس جن کو تصدیق ملتی، ان سے پانچ سو روپے کی رسید کٹوانی ضروری کی گئی، تاکہ مدرسہ زیر بار نہ ہو اور تصدیق کی اہمیت بھی قائم رہے۔ ورنہ کتنے ہی لوگ دوبارہ آجاتے تھے کہ تصدیق کہیں گم ہوگئی ہے، دوبارہ دے دیں۔
اگر کوئی شخص پھر بھی ایسا آیا جس کی تصدیق واقعی غائب ہوگئی تھی تو ناظم صاحب کا حکم تھا کہ دوسری تصدیق دیدی جائے اور رقم بالکل نہ لی جائے۔ البتہ نمبر شمار، اندراج اور تاریخ وغیرہ وہی درج کی جائیں جو پہلی تصدیق پر مندرج ہوچکی ہوں۔
ایک امتیاز جو میں نے ناظم صاحب کا دیکھا، اور ان کے علاوہ اب تک کسی اور کا نہ دیکھا، وہ یہ ہے کہ اخباری اشتہارات پر آپ جلی حروف میں لکھواتے تھے کہ:
"ادارہ ان مدارس کی نہ صرف تصدیق کرتا ہے بلکہ معطیان و خیرخواہان سے اپیل بھی کرتا ہے کہ ان کا تعاون کریں اور سفراء کا وقت ضائع نہ کریں۔ ان کے ساتھ حسن سلوک اور خوش اخلاقی کا معاملہ کریں۔"
پھر آپ نے نئے مدارس اور نئی تصدیقات کے لئے "معائینہ" کی شرط لگادی، کیونکہ بہت سے واقعات ایسے سامنے آنے لگے کہ بعضوں نے نقلی کاغذات اور نقلی دستاویزات تیار کراکے مدرسہ اور کارکنان کی آنکھ میں دھول جھونکنے کی کوشش کی۔ آپ تعجب کریں گے کہ ناظم صاحب اس سلسلہ میں اتنے حساس تھے کہ بعض وہ مدارس جن کی تصدیق ہم لوگوں نے جاکر کی تھی، بعد میں کسی کے ذریعہ اس مدرسہ کی بابت کچھ اور شکایت ملی تو ناظم صاحب نے مجھے یا مولانا محمد عارف صاحب کے بغیر بھی بلا اطلاع اس مدرسہ پہنچ گئے۔
ناظم صاحب کی ایک اور ہدایت تھی کہ جس مدرسہ کا معائینہ کرنے جاؤ، اس مدرسہ میں کھانا و ناشتہ بھی نہ کرو، کیونکہ کھانا و ناشتہ بسا اوقات سچ بولنے اور حق لکھنے میں مانع بن جاتے ہیں۔ چنانچہ بہت دفعہ ایسا ہوا کہ بھوکے واپس آنا پڑا۔
ناظم صاحب نے اصول بنایا ہوا تھا کہ معائینہ صرف متعلقہ اور متعینہ افراد کا ہی مانا جائے گا، غیر متعلقہ افراد، مدرسین یا ملازمین کا نہیں۔ چنانچہ اگر مدرسہ کے کسی استاذ نے کہیں کسی پروگرام میں شرکت کی اور اہلِ مدرسہ نے معائینہ لکھوا لیا یا کسی امتحان میں بلوایا اور تصدیق لکھوالی تو آپ اس تصدیق کو نہیں مانتے تھے، کیونکہ تصدیق کرنے والے سے کاغذات، دستاویزات، بیع نامے، وقف نامے اور سی اے رپورٹ وغیرہ طلب کی جاتی ہے۔ یہ کسی مقرر یا ممتحن کا کام ہرگز نہیں اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے کہ وہ تحقیق و تفتیش کرے۔
(اکیس ربیع الاول چودہ سو سینتالیس ہجری)
(جاری ہے)
0 تبصرے