یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط: 22)
(ناصرالدین مظاہری)
حضرت ناظم صاحب کے پاس پورے سال کا سعودی ویزہ رہتا تھا۔ جب موقع ملا، ٹکٹ لیا اور حج و عمرہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ آپ کے حج و عمرہ کے سفر بہت خفیہ ہوتے تھے، اتنے کہ حرمین شریفین پہنچنے کے بعد بھی ہم لوگ یہ سمجھتے رہتے کہ شاید ابھی ملکی سفر میں ہیں۔ بعد میں آہستہ آہستہ یہ راز کھلتا کہ ناظم صاحب تو کئی دن سے مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں موجود ہیں۔ کئی بار تو مکہ اور مدینہ کے اہلِ تعلق یا کوئی معتمر خبر دیتا کہ ناظم صاحب کو میں نے دیکھا ہے، تب جا کر یقین ہوتا۔
ایک بار کسی طرح لوگوں کو تاریخ اور ٹرین کا پتہ چل گیا۔ جب گھر پر ملاقات نہ ہوئی تو بہت سے لوگ ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے۔ لیکن یہ اطلاع بھی ناظم صاحب کو کسی ذریعے سے مل گئی۔ آپ تعجب کریں گے کہ ناظم صاحب ریلوے اسٹیشن پہنچے ہی نہیں، بلکہ کسی بس میں بیٹھ کر سیدھے ایئرپورٹ روانہ ہوگئے اور وہاں سے حرمین شریفین پہنچ گئے۔
ایک لطیفہ سناتا چلوں۔ میں پہلی بار 2018ء میں عمرہ کے سفر کے لئے حرمِ مکی حاضر ہوا۔ جدہ میں مقیم عارف بھائی کو میری بابت اطلاع تھی۔ ایک دن ان کا پیغام آیا کہ آج رات آپ کی دعوت میرے غریب خانے پر ہے۔ میں نے کہا: "عارف بھائی! میں یہاں پہلی بار آیا ہوں، مجھے پتہ ہی نہیں کہ جدہ کہاں ہے، کتنی دور ہے اور گاڑیاں کہاں سے ملیں گی۔" وہ کہنے لگے: "ناظم صاحب کی بھی آج دعوت ہے، اس لئے میں آپ کو سرپرائز دینا چاہتا ہوں۔"
ناظم صاحب کا نام سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا، کیونکہ انھوں نے ملاقات کے وقت بھی اشارے کنائے میں یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ قریب ہی پہنچنے والے ہیں۔ عارف بھائی نے کہا: "آپ نے پورا دہلی شہر چھان مارا ہے، جدہ تو دہلی کے آگے کچھ بھی نہیں ہے۔" اس بات سے مجھے حوصلہ ملا اور میں جدہ پہنچ کر اماں حوّا کے مزار تک گیا۔ فاتحہ خوانی اور ایصالِ ثواب کے بعد عارف بھائی کے ہمراہ ان کے گھر پہنچا۔ وہاں ناظم صاحب موجود تھے۔ میں نے سلام کیا تو بڑی حیرت و مسرت کے ساتھ فرمانے لگے: "آپ کو تو مکہ مکرمہ میں ہونا چاہیے تھا!" میں نے کہا: "جی ہاں، وہیں سے آیا ہوں، اور احرام بھی ساتھ لایا ہوں۔ واپسی میں مسجدِ عائشہ سے احرام پہن کر عمرہ کروں گا، ان شاءاللہ۔"
کہنے لگے: "لیکن معتمرین کو حرمین شریفین کے علاوہ کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں ہے۔" میں نے کہا: "میں تو طائف بھی گیا ہوں اور بنو سعد بھی ہو آیا ہوں، بس احرام ساتھ رکھتا ہوں تاکہ کسی بھی میقات سے احرام باندھ کر عمرہ کرسکوں۔ یعنی میں گھومنے پھرنے میں بھی عمرہ کی نیت رکھتا ہوں۔" پھر پوچھا: "یہاں کبھی پہلے بھی آئے ہو؟" میں نے کہا: "بالکل نہیں۔" تو بہت تعجب کیا اور فرمایا: "اجنبی جگہ پر اتنی خود اعتمادی لائقِ تعریف ہے۔"
خیر، میں نے کھانا کھایا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ عارف بھائی نے بہت روکا، مگر مجھے تو عمرہ کی دھن تھی۔ ہاں، جاتے وقت عارف بھائی نے جدہ کا قدیمی حصہ پیدل گھمایا، بچوں کے لئے کچھ تحائف دیے اور پھر جدہ والی کار میں بٹھا کر رخصت کیا۔
ناظم صاحب عموماً جدہ میں بھائی محمد محمد صاحب حیدرآبادی کے یہاں قیام کرتے تھے، مکہ مکرمہ میں بہت کم قیام فرماتے تھے۔ محمد بھائی آپ کے نہایت قریبی، رازدار، محبت کرنے والے اور آپ کی راحت رسانی کے لئے ہمہ وقت فکر مند رہنے والے نیک دل انسان ہیں۔ عارف بھائی نے ان سے بھی ملاقات کرانی چاہی مگر مجھ پر تو مکہ مکرمہ پہنچنے اور عمرہ سے فراغت کی دھن سوار تھی۔
ناظم صاحب بکثرت حج و عمرہ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ میں نے پوچھا: "حرمین شریفین کی حاضری کتنی بار ہوچکی ہے؟" برجستہ جواب دیا: "مجھے بالکل یاد نہیں ہے۔" یہ جواب سن کر مجھے بڑی فرحت ہوئی۔ بھلا یہ بھی کوئی سوال ہے، اور کیا ہر سوال کا جواب ضروری ہے؟
جب سفر پر جاتے تو بہت چھوٹا بیگ ساتھ ہوتا، جس میں بمشکل دو تین سوٹ ہوتے۔ واپسی پر بھی یہی بیگ ساتھ ہوتا، البتہ کھجوریں اور زمزم زیادہ ہوتا۔ کبھی کوئی سامان نہیں لاتے تھے، نہ ہی کسی سے کسی سامان کی فرمائش کرتے تھے۔ نہ ہی حرمین شریفین میں رہنے والوں سے دوستی اور یارانہ رکھتے، نہ ہی ان پر بوجھ بنتے، اور نہ ہی کسی لالچ یا مفاد کی آس رکھتے تھے۔ آپ خوددار، غیور اور خاموش مزاج انسان تھے۔
ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ایک دن میں نے جدہ ائیرپورٹ پہنچ کر اپنی اہلیہ محترمہ کو فون کیا کہ جدہ پہنچ گیا ہوں ، بہت ہنسی اور کہا کہ تم مذاق کرتے ہو۔میں نے بہت یقین دلایا تب یقین ہوا۔ ایک دن سعودی ایئرلائن میں احرام پہنے والے دہلی ٹرمنل 3 پر تھا اہلیہ نے ویڈیو کال کردی ، عجیب لباس دیکھ کر پوچھا یہ کیا اوڑھ رکھا ہے تب اسے پتہ چلا کہ میں جدہ کے لئے اڑان بھرنے والا ہوں۔
(جاری ہے)
-------------
پچھلی تمام قسطیں پڑھنے کے لیے "لنک" پر کلک کیجیے۔
0 تبصرے