یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط نمبر 23)
(ناصرالدین مظاہری)
آپ کی جید الاستعدادی اور کتابی مہارت میں کبھی کسی کو اشکال یا قیل و قال نہیں ہوا، کیونکہ آپ تھے ہی بڑے باصلاحیت۔ اگرچہ آپ کا میدان حدیث شریف تھا، مگر حدیث کے علاوہ بھی فقہ، تفسیر، معانی، بلاغت، ادب عربی و فارسی وغیرہ میں بڑا درک حاصل تھا۔
آپ کو تعجب ہوگا کہ درسِ نظامی کی بہت سی کتابوں کی لمبی لمبی عبارتیں تو یاد تھیں ہی، مگر تعجب تب ہوتا جب کوئی قاری یا تجوید کا طالب علم آتا اور بتاتا کہ وہ شاطبیہ یا جزری پڑھاتا ہے تو آپ اس کتاب کی عبارت پڑھتے چلے جاتے اور پوچھتے کہ: اس عبارت کا مطلب آپ نے کیا سمجھا ہے؟
مقاماتِ حریری، دیوانِ متنبی، حماسہ وغیرہ تو خیر آپ کے لیے کوئی مشکل کتابیں نہیں تھیں۔ آپ نے کئی سال مختصر المعانی بھی پڑھائی ہے اور ایسی پڑھائی ہے کہ ان کے اس زمانے کے طلبہ اب بھی مزے لے لے کر تذکرہ کرتے اور تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔
لاک ڈاؤن سے پہلے آپ نے مقاماتِ حریری کا سبق مفتی محمد راشد ندوی کے حوالے کیا۔ مفتی صاحب کے لیے یہ کتاب پڑھانے کا بالکل نیا تجربہ تھا۔ آپ نے ہمت اور حوصلہ دلایا اور نہایت سلیس، رواں دواں، شستہ اور خوبصورت ترجمہ راتوں رات لکھ کر بقدرِ نصاب ان کے حوالے کردیا۔ غالباً یہ ترجمہ کمپیوٹر سے ٹائپ کراکے دیا تھا۔ کاش! مفتی محمد راشد یا خلف الصدق مفتی محمد بدران سعیدی صاحب اس ترجمہ کو کتابی شکل میں شائع کردیں تو اہلِ علم طبقہ کے لیے نہایت ہی قیمتی ثابت ہوگا۔
ناظم صاحب میں بناوٹ نام کی بھی نہیں تھی۔ بارہا ایسا ہوا کہ آپ نے مجھے دورانِ سبق دفترِ اہتمام میں بلوایا اور کسی فارسی شعر یا فارسی عبارت کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ: اس کا ترجمہ کیا ہے؟ میں بہت دیر سے پریشان ہوں۔
ایک دن ایک طالب علم ایک ننھی سی پرچی لے کر درسگاہ آگیا اور کہا کہ یہ پرچی ناظم صاحب نے بھیجی ہے۔ میں نے پرچی پڑھی تو لکھا تھا:
> "مفتی ناصرالدین مظاہری! ارغاب کے کیا معنی ہیں؟"
میں نے لکھ دیا: تالاب۔ بعد میں ملاقات پر بہت خوش ہوئے اور کہا: یہ فارسی بھی عجیب زبان ہے، یا تو سب کچھ عربی سے لیتے ہیں اور جہاں اپنا کوئی جملہ داخل و شامل کرتے ہیں تو ایسا کہ پتہ ہی نہیں چلتا ہے۔
ایک دن میں آپ کے دولت کدہ پر حاضر ہوا۔ حضرت مولانا محمد طہ مظاہری رحمہ اللہ موجود تھے۔ ناظم صاحب نے پوچھا: کھانا کھالیا؟ میں نے کہا: نہیں، عشاء بعد کھاؤں گا ان شاء اللہ۔ کہنے لگے: یہیں کھالو۔ چنانچہ تازہ بتازہ روٹیاں اندر سے آگئیں اور میں کھانے سے فارغ ہوگیا۔
ناظم صاحب نے پوچھا: کھانا کیسا تھا؟ میں نے کہا: بہت اچھا تھا، گرما گرم روٹیوں نے لذت دوبالا کردی۔
حضرت مولانا محمد طہ مرحوم کی عادت بال کی کھال نکالنے کی تھی، بوڑھے بھی تھے۔ کہنے لگے: گرم گرم روٹیاں کہہ دیتے تب بھی کافی تھا، یہ "گرما گرم" کیا ہے؟
میں نے عرض کیا کہ: فارسی میں کسی بھی چیز میں مبالغہ یا زیادتی کے جو ضابطے ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دو ایک جیسے الفاظ لائیں اور پہلے والے لفظ کے آخر میں "الف" بڑھا دیں تو مبالغہ آمیز جملہ بن جاتا ہے۔ جیسے:
گرم سے گرما گرم
شرم سے شرما شرم
نرم سے نرما نرم
کشاکش
مولانا کہنے لگے: واہ میاں! تونے تو لاجواب کردیا۔ میں نے عرض کیا: حاشا و کلا، اس جگہ میرا مقصود صرف آپ کو مطمئن کرنا تھا، لاجواب کرنا ہرگز نہیں۔
بارہا ایسا ہوا کہ ناظم صاحب نے واٹس ایپ پر کوئی فارسی عبارت یا شعر لکھ کر میسج کردیا اور پوچھا کہ: فلاں چیز کا ترجمہ کیا ہے؟
انتقال سے کچھ ہی دن پہلے کئی قبروں کے فارسی کتبات کے عکس بھیجے اور ان کا ترجمہ کرایا۔ یہ سارے کتبے فارسی میں اور آپ کے والدِ محترم حضرت مولانا اطہر حسین رحمہ اللہ کے قلم سے تھے۔
(جاری ہے)
(تیئس ربیع الاول ۱۴۴۷ھ)
===========
پچھلی ساری قسطیں پڑھنے کے لیے "لنک" پر کلک کیجیے!

0 تبصرے