یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط نمبر 24)
(ناصرالدین مظاہری)
بچوں کے ساتھ شفقت بھی خوب کرتے تھے اور کبھی کبھی ان کے ساتھ اٹکھیلیاں اور مزاحیہ انداز بھی اختیار کرلیتے تھے۔ قاری محمد عاقل اختر قاسمی استاذ شعبہ تجوید مظاہرعلوم وقف سہارنپور کے دو تین ننھے بچے دفتر کے صحن میں کھیل کود رہے تھے۔ ان میں جو بڑا تھا اس کی عمر بمشکل چار ساڑھے چار سال رہی ہوگی۔ ناظم صاحب نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا:
"اگر دفتر میں کھیلو گے تو پڑھنا بھی پڑے گا، جاؤ اپنا قاعدہ لے آؤ۔"
وہ بچہ گیا اور قاعدہ لے آیا۔ ناظم صاحب نے پڑھانا شروع کردیا۔ بچے نے بھی پڑھنا شروع کیا۔ الف، باء، تاء، ثاء، جیم، حاء، خاء، دال، ذال، راء، زاء ، سین تک تو معاملہ ٹھیک رہا، لیکن "شین" کہنے میں بچے کو دقت ہوئی، تلفظ ادا ہی نہیں ہو پارہا تھا۔ ناظم صاحب نے ہونٹوں کا عجیب سا زاویہ بنایا اور دکھاتے ہوئے کہا:
"شی، شی، شی، شین۔"
اتنا سنتے ہی بچہ بولا:
"ایسے تو کتا بھی نہیں کرتا "
ناظم صاحب اس قدر ہنسے کہ آنکھوں سے پانی نکلنے لگا۔
ایک دن ماہِ رمضان کا مہینہ تھا۔ آپ دفترِ تعلیمات میں ظہر کے بعد بیٹھے ہوئے تھے۔ سمیع الدین شمسی قلندر آئے اور جیب سے رسید نکال کر دکھاتے ہوئے کہا کہ میں نے فطرہ کی رسید کٹوالی ہے۔ سمیع الدین شمسی حضرت کے حاضر باش اور کچھ نہ کچھ خادم بھی تھے۔
ناظم صاحب نے رسید دیکھی، رقم ڈھائی سو روپے درج تھی۔
"پوچھا: کتنے فطروں(نفر) کی رسید ہے؟"
جواب دیا: "سات نفر۔"
ناظم صاحب نے بطورِ مزاح فرمایا:
"اس میں تو سات فطرے لکھے ہی نہیں ہیں!"
سمیع الدین پریشان ہوگئے اور بولے: "تعداد لکھوانے کی کیا ضرورت ہے؟"
ناظم صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا:
"بھئی فرشتوں کو کیسے پتہ چلے گا کہ اس وقت سہارنپور میں گیہوں کا ریٹ کیا ہے اور فی کس کتنا گیہوں آئے گا ؟ اگر تعداد کی صراحت ہوتی تو فرشتے فوراً لکھ دیتے۔"
سمیع الدین کہنے لگے:
"ٹھیک ہے، کل تو جمعہ ہے، پرسوں اسی رسید پر تعداد بھی لکھوادوں گا۔"
ناظم صاحب فل موڈ میں تھے، فرمایا:
"اچھا! تو فرشتے تمہارے نوکر تو ہیں نہیں کہ وہ دو تین دن کا ریکارڈ الٹ پلٹ کر تصحیح کریں گے۔ انھیں کیا ضرورت پڑی ہے، بھئی ان کے پاس اور بہتیرے کام ہیں!"
سمیع الدین شمسی بولے:
"تو پھر دوبارہ کٹوالوں گا اور غصہ میں بولے بتاؤ جی ! یہ کام تو دفتر والوں کا ہے، اب مجھے پھر سے رسید کٹوانی پڑے گی، ورنہ واقعی فرشتوں کو کیا پتہ کہیں ایک ہی بندے کے نام لکھ دیں!"
ایک دن آپ تعلیمی اوقات میں دارالطلبہ قدیم میں گشت پر تھے۔ حجرہ حجرہ جاکر چیکنگ کررہے تھے۔ ایک کمرہ میں ایک طالب علم بیٹھا ہوا ملا۔ آپ نے اس سے پوچھا:
"تم پڑھنے کیوں نہیں گئے؟"
کہنے لگا: "ابھی درسگاہ سے آیا ہوں۔"
ناظم صاحب نے پوچھا: "تمہارے پاس بڑا موبائل ہے؟"
طالب علم نے بہت ہی حسرت کے ساتھ کہا:
"کل ناظم صاحب نے ضبط کرلیا تھا۔"
(بے چارہ جانتا ہی نہیں تھا کہ ناظم صاحب سے ہی ہم کلام ہے!)
---
ایک طالب علم چھٹی لینے آیا۔ طلبہ بڑے حیلہ باز ہوتے ہیں۔ اس نے درخواست پر اپنے بڑے ابو یعنی والد کے بھائی کو مار رکھا تھا۔
ناظم صاحب نے اچانک کہا:
"بھئی تم تو پچھلے سال کی درخواست میں اپنے بڑے ابو کو مار چکے ہو، اب پھر بڑے ابو؟"
طالب علم کہنے لگا:
"دو بڑے ابو تھے!"
مہمان خانے میں جو خدمت گار ہے مرسلین نام ہے یہ اس وقت عربی اول یا دوم پڑھتا تھا ، یہ نیا نیا مدرسہ میں داخل ہوا تھا ، دفتر میں ہی جہاں شعبہ ترتیب فتاوی ہے یہیں قیام و طعام رہتا تھا ایک دن یہ ناظم صاحب کے پاس سے گزرا ، سلام کیا، ناظم صاحب نے جواب دے کر پوچھا کہاں سے آئے ہو؟ کہنے لگا ڈھکہ سے ، ناظم صاحب نے ڈھکہ کے لب و لہجہ میں بات شروع کردی تو مرسلین کہتا ہے:
"تنے بہت جلدی ماری جبان سیکھ لی"
ناظم صاحب ہنسنے لگے اور کہا کہ جہاں جارہے تھے چلے جاؤ".
(جاری ہے)
0 تبصرے