یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(طلبہ اور غرباء کا خفیہ تعاون)
(قسط نمبر 25)
(ناصرالدین مظاہری)
حضرت ناظم صاحب رحمہ اللہ خفیہ طور پر خیر اور خیراتی کام اتنے کرتے تھے کہ ان کی یومیہ فہرست بنائی جاسکتی ہے۔ لیکن چونکہ ایسے لوگ نہ تو کسی کو بتاتے ہیں اور نہ ہی کبھی فوٹو فاٹو کے شوقین رہے ، اس لیے ان کے کارنامے زیادہ ظاہر نہ ہو سکے۔ البتہ کچھ لوگ جو ان کی خفیہ داد و دہش سے فیضیاب یا ذریعہ بنے ہیں، ان سے کبھی کبھار کچھ پتہ چل گیا تو چل گیا۔
بعض واقعات کا میں خود عینی شاہد ہوں۔ بلکہ خطیر رقمیں مجھے ہر سال دیتے تھے کہ یہ کرادو، وہ کرادو۔ ذیل میں انہی چند واقعات کی ایک جھلک دکھا کر آگے بڑھتا ہوں۔
فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین رحمہ اللہ کے زمانے میں اور ان سے پہلے ادوار میں طلبہ کو سردیوں میں لحاف دینے کے دو ضابطے تھے۔ ایک ضابطہ یہ تھا کہ ہر دو سال بعد قدیم طالب علم کو، جو مسلسل پاس ہوتا اور کھانا کھاتا، ایک نیا لحاف بالکل مفت ملتا تھا جس کا وہ طالب علم مالک ہوتا تھا۔ دوسرا ضابطہ یہ تھا کہ مذکورہ طلبہ کے علاوہ تمام ضرورت مند طلبہ کو مستعار لحاف ملتا تھا جس کی واپسی ضروری تھی۔
یہ مستعار لحاف اتنے ناگفتہ بہ ہوتے تھے کہ دیکھ کر بھی طبیعت مکدر ہوتی تھی۔ حضرت مفتی صاحب کے زمانے میں تو مجھے بولنے اور کچھ عرض کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ لیکن جب آپ ناظم بنے تو اولین کام یہی ہوا کہ مستعار لحاف کا سلسلہ سرے سے ختم کردیا گیا۔ اب جدید و قدیم کی قید ہی ختم ہوگئی اور ہر ضرورت مند طالب علم کو اس کی درخواست کی بنیاد پر بالکل نیا کمبل یا لحاف دیا جانے لگا۔
نئے کمبل کے سلسلہ میں جب میں نے حضرت ناظم صاحب سے بات کی تو فرمایا کہ "اس طرح تو بہت کمبلوں کا نظم کرنا پڑے گا؟" میں نے عرض کیا کہ "آپ تو ان طلبہ کے لیے صرف فیصلہ کرلیجیے، انتظام آپ نہیں، اللہ تعالیٰ ہی کرے گا"۔ اور وہی کرتا رہا ہے۔
چنانچہ کمبل دینے کا نظام بنا۔ میں نے چند خاص سفراء کرام کو اس سلسلہ میں متوجہ کیا، خاص طور پر دہلی حلقہ کے قاری ذوالفقار علی صاحب سے بات کی۔ قاری صاحب نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ اس پر کام کیا اور اکثر کمبل آپ کے توسط سے مدرسہ کو حاصل ہوگئے۔ پھر اہل خیر کو جوں جوں معلوم ہوتا گیا، دستِ تعاون دراز ہوتا گیا۔ اور آج الحمدللہ ہر سال بقدرِ ضرورت نظم ہوجاتا ہے۔
اس نئے نظام سے طلبہ بھی خوش، معاونین بھی خوش اور ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ بھی خوش۔
دو تین سال سے سردی بہت زیادہ ہوتی ہے اور طلبہ کا مزاج بنانے سے بنتا ہے۔ جن طلبہ کو پچھلے سال لحاف یا کمبل مل چکا ہے، اگر ضرورت ہوئی تو درخواست دیدی ورنہ نہیں۔ چنانچہ بعض طلبہ نے درخواست دی کہ "کمبل سے کام نہیں چل رہا ہے، لحاف چاہیے"۔ تو ناظم صاحب نے مجھے بلایا کہ "سردی واقعی زیادہ ہے، طلبہ نے کمبل بھی لے لیے اور لحاف کی درخواستیں بھی دینے لگے ہیں، اب کیا کرنا ہے؟"
کچھ دیر غور کیا، پھر فرمایا کہ "گھر چلو، میں پیسے دیتا ہوں اور لحاف خرید کر فی درخواست ایک کمبل دے دو"۔ طلبہ کی جانکاری کے لیے عرض کرتا ہوں کہ وہ لحاف جو ادھر دو تین سال کے اندر آپ لوگوں کو میرے ذریعہ میرے کمرے سے تقسیم ہوئے ہیں، وہ رقم حضرت ناظم صاحب رحمہ اللہ ہی دیتے رہے ہیں۔
میں نے ہارون نامی ایک طالب علم کے بارے میں بتایا کہ وہ یتیم بھی ہے، عربی اول کا ذہین اور محنتی طالب علم ہے۔ اس کا گھر یہیں شہر میں ہے اس لیے اس کو وظیفہ نہیں ملتا ہے۔ مدرسہ چونکہ ہر طالب علم کو پانچ سو روپے ماہانہ وظیفہ دیتا ہے، اگر یہ بچہ بھی وظیفہ پانے لگے تو یتیم کی کفالت میں کچھ نہ کچھ شرکت ہو جائے گی اور کم از کم اس کا ماہانہ خرچ چلتا رہے گا۔
ناظم صاحب نے فرمایا کہ "میں نے تحقیق کی ہے، وہ مدرسہ میں رہتا نہیں ہے، کھانا بے شک کھاتا ہے۔ اس لیے ضابطہ میں تو وظیفہ نہیں ملے گا، لیکن آپ ہر ماہ کی تین تاریخ کو مجھ سے پانچ سو روپے لے کر بچے کو دے دیا کرنا"۔ میں نے عرض کیا کہ "بہتر ہے کہ بچے کو آپ براہِ راست دے دیا کریں"۔ فرمایا "نہیں، میں یہ نہیں چاہتا کہ وظیفہ لینے کے لیے بے چارہ میرے پاس آئے"۔ چنانچہ ہارون میاں کو ہر ماہ ماشاء اللہ ناظم صاحب کی طرف سے وظیفہ ملتا رہا۔
اسی ہارون کی سائیکل چوری ہوگئی تو آپ نے دو ہزار روپے جیب سے نکال کر دئے کہ "سائیکل خرید دینا"۔
میں متعدد افراد کے نام جانتا ہوں جن کو ناظم صاحب کی طرف سے پابندی کے ساتھ "بند مُٹھی" ملتی تھی۔ سچ یہ ہے کہ آپ حدیث نبوی:
"وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَخْفَاهَا حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ"
کا مصداق تھے۔ یہ خفیہ تعاون اتنا خفیہ ہوتا تھا کہ آپ کی کسی اولاد کو بھی ذرہ برابر پتہ نہیں چلنے پایا۔
میری درسگاہ میں ایک طالب علم عبدالمقتدر پڑھتے پڑھتے اچانک بے ہوش ہوگیا ، ڈاکٹر کو بلایا گیا اس نے کسی بڑے ڈاکٹر کو دکھانے کا مشورہ دیا ، ناظم صاحب کو پتہ چل گیا فورا تشریف لائے ، اپنی جیب سے دوہزار روپے مجھے دئے اور فرمایا کہ اس بچہ کے علاج میں جو روپے خرچ ہوں خرچ کرو کم پڑیں تو مجھے بتاؤ ، میں نے اس بچے کے والد صاحب سے پوچھا انھوں نے سترہ سو روپے بتائے میں نے سترہ سو روپے دے دئے اور کہا کہ اگر پھر دوائی لینے کی ضرورت پڑے تو مجھے خبر کرنا۔
پھر ناظم صاحب نے بچہ کی بابت پوچھا پوری بات بتائی تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ متولی ہونا بڑی ذمہ داری کا کام ہے۔
حضرت مولانا محمد اسعد اللہ رام پوری سابق ناظم مظاہر علوم سہارنپور کے صاحب زادے بھائی امجد اللہ (مجذوب الحال) کی بھی اچھی خاصی مدد کیا کرتے تھے۔
(جاری ہے)
(پچیس ربیع الاول چودہ سو سینتالیس ہجری)
-----------------
0 تبصرے