یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط نمبر 28)
(ناصرالدین مظاہری)
لگے ہاتھوں چند دلچسپ باتیں کتب خانے کے تعلق سے عرض کرتا چلوں جو بہرحال پرلطف بھی ہیں، اور تحریر کے اندر سے صاحبِ تحریر کا خفتہ و خوابیدہ درد اور کسک بھی بدرجہ اتم محسوس کیا جاسکتا ہے۔ چونکہ یہ تحریر حضرت ناظم صاحب کی حیات اور خدمات پر مشتمل ہے، اس لیے صاحبِ تحریر کا فرض ہے کہ ساری ہی باتیں بلاکم و کاست لکھی جائیں، تاکہ خوبیوں پر دادِ تحسین دی جائے اور خامیوں کی اصلاح بھی ہوسکے۔
ہوا یہ کہ رضا لائبریری رام پور میں ہر سال حکومتِ ہند کی جانب سے مخطوطات کے تحفظ کے سلسلہ میں ورکشاپس کا انعقاد ہوتا تھا۔ حضرت مولانا عزیزالنبی خان مظاہری مرحوم کی ذاتی کوششوں سے مظاہر علوم وقف سہارنپور کے نام بھی دعوت نامہ جاری ہونا شروع ہوا۔ مظاہر علوم وقف سے حضرت ناظم صاحب مدرسہ کی طرف سے دو نمائندگان کو ہر سال اس سہ روزہ پروگرام میں شرکت کے لئے بھیجتے تھے۔
دو بار مجھے اور مولانا محمد سلمان کو بھیجا گیا۔ میں الحمدللہ جلدی کسی سے متاثر نہیں ہوتا، اور اگر متاثر ہوگیا تو جلدی بدظن نہیں ہوتا، اور اگر بدظن ہوگیا تو جلد سے جلد بدظنی دور کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
پروگرام چل رہا تھا۔ دہلی کے کسی بڑے سرکاری میوزیم کے بڑے ماہر تعلیم کا لیکچر تھا۔ اس لیکچر میں موصوف نے تاکید کے ساتھ یہ بات کہی کہ کوئی بھی کتاب اس وقت نافع مانی جاتی ہے جب اس کتاب کو تقریباً ستر افراد نے پڑھا ہو۔ یعنی کتاب کو لائبریری میں سنبھال کر لاک کرکے مت رکھو بلکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مطالعہ کے لئے دو، تاکہ کتاب کی عمر پوری ہونے سے پہلے کتاب کی تصنیف، طباعت اور اشاعت کا حق ادا ہوسکے۔ کسی بھی کتاب کو، چاہے وہ مطبوعہ ہو یا غیر مطبوعہ، اس کا فائدہ تبھی ہے جب وہ خوب پڑھی جائے۔
بہرحال مولانا محمد سلمان میرے بازو میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے سرگوشی کی:
"کہو تو کہہ دوں کہ آپ نے جگہ جگہ لکھوا رکھا ہے: کتابوں اور الماریوں کو ہاتھ لگانا منع ہے۔"
مولانا ہنسے اور بات ختم ہوگئی۔
لائبریری کی طرف سے ہمارا قیام ایک خوبصورت ہوٹل میں تھا۔ پورا ہوٹل ہی انتظامیہ نے بک کرلیا تھا۔ میں اور مولانا محمد سلمان ایک ہی کمرے میں تھے اور کسی بات پر ہنس رہے تھے۔ ہماری ہنسی کی آواز سن کر علی گڑھ شہر کے ایک پروفیسر بھی ہمارے کمرے میں آدھمکے۔
دورانِ گفتگو کہنے لگے کہ:
"آپ کے یہاں مخطوطات تو بہت ہیں ماشاءاللہ۔"
ہم لوگوں نے بھی ماشاءاللہ کہا۔
وہ کہنے لگے: "ان مخطوطات کے تحفظ کے سلسلہ میں آپ لوگ کیا کرتے ہیں؟"
میں پروفیسر صاحب سے واقف تھا، کچھ اسکرو بھی ڈھیلے تھے۔ مجھے پتہ تھا کہ یہ صرف وقت گزاری کے لئے "تشریف" کے ساتھ "تشریف" لائے ہیں۔ اس لئے مولانا محمد سلمان صاحب سے پہلے میں بول پڑا:
"ہمارے یہاں کتابوں اور مخطوطات کی دیکھ ریکھ، صفائی ستھرائی کا سارا کام حافظ صداقت علی صاحب کرتے ہیں۔"
کہنے لگے: "کیسے کرتے ہیں؟"
میں نے کہا: "پہلے ایک بالٹی پانی لاتے ہیں۔"
پوچھا: "پانی کیوں؟"
میں نے کہا: "کتابوں پر چھڑکنے کے لئے۔"
پوچھا: "پانی کیوں چھڑکا جاتا ہے؟"
میں نے کہا: "ورنہ کرنٹ کام نہیں کرتا۔"
پوچھا: "کرنٹ کیوں بھئی کیوں؟"
میں نے کہا: "اصل میں لوہے کی الماریاں ہیں۔ کتابیں خشک رہتی ہیں تو لوگ پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر یوں ہی پڑھی جاتی رہیں تو کتابیں گھس گھسا کر ضائع ہو جائیں گی۔ اس لئے پہلے پانی چھڑکا جاتا ہے، پھر اس میں بجلی کے تار سے کرنٹ دوڑایا جاتا ہے تاکہ جو بھی چھوئے وہیں ڈھیر۔"
ہماری یہ بکواس اتنی سنجیدہ تھی کہ پروفیسر صاحب سن کر سر تھام کر جھک گئے۔ پھر اچانک سر اٹھایا اور گویا ہوئے:
"اوہو! اس طرح تو کتابیں ضائع ہو جائیں گی!"
یقین مانیے ہم دونوں نے شاید زندگی میں کبھی اتنی ہنسی نہ روکی ہوگی جتنی اس دن اس ملاقات پر روکی۔ پھر جب وہ چلے گئے تب دل کی بھڑاس نکالی۔
یہ واقعہ ناظم صاحب کو سنایا تو ہنستے ہنستے بے حال ہوگئے اور کبھی کبھی سفر میں سنتے اور مسرور ہوتے۔
الحمدللہ اب مظاہر علوم وقف سہارنپور میں دارالمطالعہ قائم ہوگیا ہے اور اس دارالمطالعہ کے قیام کا سہرا بھی ناظم صاحب کے سر ہے۔ آپ نے مکمل کام کرادیا تھا، صرف افتتاح باقی تھا کہ آپ مولائے حقیقی سے جاملے۔
اب اتنی آسانی تو ہوگئی ہے کہ جو کتاب پڑھنا چاہیں اور ایک نسخہ سے زیادہ ہو تو وہ درخواست پر دارالمطالعہ پہنچادی جائے گی۔
ایک نسخہ پر ایک واقعہ
مظاہر علوم وقف سہارنپور کے کتب خانے کا ایک ضابطہ ہے کہ جس کتاب کا ایک ہی نسخہ ہے وہ کسی بھی استاذ یا غیر استاذ کو مستعار نہیں دیا جائے گا۔
چنانچہ مجھے ایک کتاب کی مدرسہ کے ہی ایک کام کے لئے ضرورت تھی۔ کتاب مہنگی اور آٹھ دس جلدوں پر مشتمل تھی۔ میں نے کتاب کی فرمائش کی تو پتہ چلا کہ یہ کتاب تو کتب خانے میں نہیں ہے۔
میں نے مدرسہ کے لئے قیمتا کتاب خرید لی اور کتب خانے میں داخل کردی۔ اندراج وغیرہ ہونے کے بعد جب میں نے کتاب طلب کی تو کتب خانے والوں نے ٹکا سا جواب دے دیا کہ:
"کتاب کا ایک ہی نسخہ ہے اور ایک نسخہ عاریت پر نہیں دیا جاسکتا۔"
یہ سن کر تو میں سن ہوگیا۔ بڑا غصہ آیا اور جاکر ناظم صاحب کو پورا واقعہ سنایا۔ ناظم صاحب خوب ہنسے اور فرمایا:
"قانون تو یہی ہے۔ آپ نے بھی کنجوسی کی کہ ایک ہی سیٹ خریدا، دو خرید لیتے۔"
خیر، بتانا یہ مقصود ہے کہ الحمدللہ ناظم صاحب مدرسہ کے ضوابط کی خوب رعایت اور روایت پر عمل کرتے تھے۔
(جاری ہے)
(اٹھائیس ربیع الاول چودہ سو سینتالیس ہجری)
----------------
0 تبصرے