یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط نمبر 29)
(ناصرالدین مظاہری)
تقریروں، پروگراموں، جلسوں، کانفرنسوں، سیمیناروں اور اجتماعات و محافل و مجالس میں شرکت کا مزاج نہیں تھا۔ ایسا نہیں کہ آپ تقریر نہیں کرپاتے تھے بلکہ طبعی طور پر آپ کو تقریر کا ذوق ہی نہیں تھا، ورنہ ایک صاحب نے بتایا کہ تقریباً بیس سال پہلے ممبئی کے کسی پروگرام میں آدھا گھنٹہ تک آپ نے مدلل تقریر کی تھی۔ ویسے اگر کبھی موڈ میں ہوتے اور مخاطب بھی باذوق ہوتے تو دفتر اہتمام میں دورانِ ملاقات اچھی خاصی عالمانہ گفتگو کرتے تھے۔ آپ کو نام و نمود بالکل پسند نہیں تھا۔ کتنے ہی بڑے مدارس کے اربابِ حل و عقد اپنے مدرسہ کا سرپرست یا رکنِ شوریٰ بنانا چاہتے مگر ہمیشہ ہی انکار کردیتے۔
میری معلومات کے مطابق آپ کسی بھی مدرسہ کے سرپرست یا ممبرِ شوریٰ نہیں تھے۔ اگر کسی نے آپ کا نام لکھا اور چھاپا ہے تو یہ اس کی غایتِ محبت ہے۔ حضرت مولانا سید حبیب احمد باندویؒ کا واقعہ خود میرے سامنے کا ہے۔ حضرت ناظم صاحب کو جامعہ عربیہ ہتھوڑا باندہ کا رکنِ شوریٰ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر آپ ٹالتے ہی رہے۔
میں نے بعد میں پوچھا بھی کہ آپ نے بھائی حبیب احمد باندوی کو اپنے مدرسہ کا رکنِ شوریٰ بنایا ہوا ہے، وہاں کا رکنِ شوریٰ بننے میں کیا مانع ہے؟ فرمایا: کیا بتاؤں! مزاج ہی ایسا ہے کہ طبیعت بالکل راغب اور طالب نہیں ہوتی۔
پوسٹروں، اشتہاروں، بینروں اور اخباروں میں بھی چھپنے کی کبھی خواہش اور تمنا نہیں رہی۔ سیاسی شخصیات، سرکردہ ہستیوں، امیروں، وزیروں، ساہوکاروں—کسی سے بھی آپ کو طبیعی مناسبت اور میلان نہیں تھا۔ کوئی آگیا تو بھی ٹھیک، نہیں آیا تو بھی ٹھیک۔ لوگ کہتے بھی کہ فلاں سیاسی شخصیت کو دعوت دیجیے مناسب رہے گا، آپ صاف منع کردیتے اور کہتے کہ مظاہر علوم کو سیاست کا اڈہ اور اکھاڑہ بنانا نہیں چاہتا۔ اگر کوئی اپنی مرضی سے آجائے تو مدرسہ کے دروازے کھلے ہیں۔ ماضی میں ملائم سنگھ یادو، شیوپال یادو، محمد اعظم خان وغیرہ جو بھی آیا بلا حیل و دعوت دیے بغیر ہی آیا ہے اور اب بھی وہی طرز اور روش قائم رہے گی۔
کبھی کسی ممتاز سیاسی شخصیت کی آمد پر لوگوں نے مشورہ دیا کہ سپاس نامہ پیش ہونا چاہیے تو آپ نے فرمایا کہ اگر مہمان نے ہی کہلوایا ہو تو آپ انھیں آنے سے ہی منع کردیجیے۔
جبکہ روحانی شخصیات کی آمد کے موقع پر آپ نے مہمان خانے کو دلہن کی طرح سجادیا، پروگرام کرایا اور کیا ہی پروگرام کرایا کہ اس کی لذت اور کیف و کیفیت کافی دن تک لوگوں نے محسوس کی۔
حضرت اقدس احسن بیگ خلیفہ و مجاز حضرت علامہ اللہ یار خان رحمہ اللہ دوبار بھارت تشریف لائے اور دونوں بار مدرسہ کو گویا خانقاہ سے تبدیل یعنی کنورٹ کردیا۔ حالانکہ حضرت احسن بیگ رحمہ اللہ سلسلہ نقشبندیہ اویسیہ کے بزرگ تھے، جبکہ مظاہر علوم ابتدا سے ہی چشتیت کا مرکز و محور ہے۔
حضرت مولانا شاہ محمد قمر الزماں الہ آبادی مدظلہ جب بھی تشریف لائے یا جب بھی بلائے گئے تو شایانِ شان استقبال کیا اور کبھی یک روزہ اور کبھی سہ روزہ مجلسِ ذکر کا انعقاد کرایا اور خلقِ کثیر نے ان مجالس سے استفادہ کیا۔ بعد میں حضرت مولانا محمد قمر الزماں الہ آبادی مدظلہ نے اجازتِ بیعت و خلافت سے بھی نواز دیا تھا اور اس طرح گویا حضرت مفتی مظفر حسین، حضرت مولانا اطہر حسین، حضرت حافظ ظفر احمد سہارنپوری، حضرت مولانا عبداللطیف نلہیڑوی، حضرت مولانا الہ آبادی وغیرہم کے مجاز تھے۔
آپ کی خواہش تھی کہ حضرت مولانا الہ آبادی کم از کم ہر ماہ خانقاہی نظام مظاہر علوم وقف سہارنپور میں چلائیں اور اس کے لیے آپ لانے اور پہنچانے پر بھی غور و فکر کے بعد فیصلہ کرچکے تھے،آپ نے تحریری مکتوب اور درخواست بھی بھیجی تھی لیکن حضرت الہ آبادی مدظلہ مغربی یوپی، خاص کر دیوبند و سہارنپور میں اس نظام کو بڑے پیمانے پر چلانے میں محض اس لیے مصلحت ملحوظ رکھتے تھے کہ یہاں چپہ چپہ پر خانقاہیں اور بزرگانِ دین موجود ہیں؛ یعنی پیاسوں کے لیے معقول چشمے موجود ہیں۔
(انتیس ربیع الاول چودہ سو سینتالیس ہجری)
(جاری ہے)
-------------
0 تبصرے