یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط نمبر 30)
(ناصرالدین مظاہری)
ایک زمانہ تھا کہ سہارنپور میں صرف کفر اور اسلام کے نام لیوا تھے۔ کفر میں تو تقریباً تمام ہی مذاہب کے ماننے والے ہیں، لیکن اسلام کے نام لیواؤں میں صرف اہل سنت والجماعت یعنی دیوبندی تھے۔ پھر رفتہ رفتہ معلوم ہوا کہ شہر سہارنپور کے ایک محلہ میں ایک حکیم صاحب نے بریلویت کا جھنڈا لہرا دیا ہے۔ ابھی اس بات کا چرچا اور سنجیدہ طبقات میں اس سلسلہ میں گفتگو ہی ہو رہی تھی کہ خبر ملی کہ شہر کے کئی محلوں میں کچھ لوگ ایسے بھی پیدا ہوگئے ہیں جو قادیانی مذہب اختیار کر چکے ہیں، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ فلاں شخص قادیانیت کا عَلَم بردار بنا ہوا ہے۔ أستغفرُ اللهَ ربي من كل ذَنبٍ۔
بریلویت اور قادیانیت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ بریلویوں سے ہمارا اختلاف بنیادی نہیں، فروعی ہے۔ بریلوی بھی حنفی ہیں، دیوبندی بھی۔ بریلوی بھی عشقِ رسول میں انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں اور دیوبندی تو عشقِ نبی میں مرغ بسمل ہیں۔ دونوں کو حرمین شریفین سے غایت درجہ تعلق ہے۔ دیوبندیت اعتدال پسند موقف اختیار کرتی ہے، ان کے اندر نہ تعصب ہے نہ تشتت۔ یہ تشدد پر نہیں بلکہ مفاہمت اور اخلاق پر یقین رکھتی ہے۔ دیوبندی اکابر ہمیشہ بریلوی اکابر کا نام احترام سے لیتے رہے ہیں۔ دیوبندی نعت خواں تو عموماً بریلوی نعت خوانوں کے نعتیہ کلام سے اپنے پروگرام کو سجاتے اور جگمگاتے رہتے ہیں۔ دیوبندی مدارس میں بریلویوں کے سرخیل مولانا عبدالسمیع بیدل رام پوری کی کتاب داخلِ نصاب ہے۔ اس کتاب کے عمدہ حواشی دارالعلوم دیوبند کے استاذ مفتی محمد معروف قاسمی کے تحریر فرمودہ ہیں۔ دیوبندیوں کے اندر بریلویوں کے لئے کوئی دشمنی نہیں ہے، بس چند اہم مسائل ہیں جن پر شرعی نقطۂ نظر سے اختلاف ہے۔
بہرحال حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ نے شہر کے سنجیدہ افراد کو دفترِ اہتمام میں دعوت دی۔ حضرت مولانا محمد ریاض الحسن ندوی مظاہری مدظلہ اس رابطہ کار نظام کی اہم کڑی تھے۔ بار بار کارنر میٹنگیں ہوئیں۔ قادیانیت کے خلاف بنیادی اختلاف اور ان کے کفریہ عقائد سے لوگوں کو واقف کرایا گیا، اور الحمدللہ کافی تگ و دو کے بعد نوبت یہاں تک پہنچی کہ قادیانی "سورماؤں" کو شہر سہارنپور چھوڑنا پڑا، یا یوں کہہ لیجیے کہ سہارنپور سے انھیں کھدیڑ دیا گیا۔ یہ بھگوڑے قادیان اور گورداسپور پہنچ کر گمنامی میں چلے گئے۔
اس موقع پر حضرت ناظم صاحب نے طے کیا کہ ماہنامہ آئینہ مظاہر علوم کا ایک خصوصی شمارہ "ختمِ نبوت نمبر" شائع کیا جائے۔ چنانچہ 120 صفحات پر مشتمل ایک وقیع شمارہ بڑی تعداد میں شائع کیا گیا اور دور و نزدیک پہنچایا اور پڑھا پڑھایا گیا۔ اللہ قبول فرمائے۔
ہندوستان کی علمی و فکری فضا میں کبھی کبھی ایسے نام بھی ابھرتے ہیں جو نئے خیالات اور بلند بانگ دعووں کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔ لیکن جب ان کے افکار و نظریات کو باریکی سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ روشن خیالی کے نام پر دین کی اساسات پر ہی کاری ضرب لگا رہے ہیں۔ انہی میں ایک نام راشد شاز کا ہے۔
راشد شاز کی تحریروں اور تقریروں کا خلاصہ یہ نکلتا ہے کہ وہ امت کے جمہور علماء کی محنتوں اور متفقہ راہوں کو نظر انداز کر کے "نئی تعبیرِ دین" کے داعی ہیں۔ وہ اجماع اور قیاس جیسے مسلمہ شرعی اصولوں کا مذاق اڑاتے ہیں، محدثین کرام اور متقدمین کی کاوشوں پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں، اور بالخصوص حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنے شکوک و شبہات ظاہر کرتے ہیں۔ یہ طرزِ فکر دراصل امت کو اُس لڑی سے کاٹنے کی کوشش ہے جس نے صدیوں سے دین کی حفاظت کی ہے۔
ان کے یہاں "اصلاحِ امت" کا نام تو لیا جاتا ہے، مگر حقیقت میں وہ عقل پرستی اور مغربی فکر کے زیرِ اثر دین کے بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ دین کے مسلمہ اصولوں اور متفقہ تعبیرات پر عدم اعتماد، اور خودساختہ تاویلات پر اعتماد—یہی ان کے فکر کی اصل بنیاد ہے۔
الحمدللہ! علمائے حق نے بروقت اس فتنہ کو پہچانا اور عوام الناس کو اس کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا، جس کے نتیجہ میں راشد شاز کا دائرہ اثر محدود ہو گیا۔ ورنہ اگر یہ خیالات خاموشی سے رائج ہو جاتے تو نئی نسل کے اذہان میں سخت الجھن اور انتشار پیدا ہوتا۔
یہ بات ہر دور میں درست ہے کہ دین اسلام کا تحفظ صرف کتابی دلائل سے نہیں بلکہ اکابرینِ امت کی متفقہ تشریحات اور ان کے تسلسل سے وابستگی میں ہے۔ جو لوگ اس رسی کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں وہ خود تو بھٹکتے ہی ہیں، دوسروں کو بھی گمراہی کی راہوں پر ڈال دیتے ہیں۔
حضرت ناظم صاحب نے مدرسہ کے مفتیان اور مولانا محمد ریاض الحسن ندوی مدظلہ کے تعاون سے راشد شاز کے عجیب و غریب فکری انحرافات اور جمہور سے ہٹ کر خیالاتِ فاسدہ و کاسدہ کی زہرناکی اور خطرناکی کا ادراک و احساس کرتے ہوئے پھر سنجیدہ طبقات کو بلایا گیا، اور تفصیل کے ساتھ راشد شاز کے فکری انحرافات سے واقف کرایا گیا۔ رفتہ رفتہ اہلِ شہر اس فتنہ سے واقف ہوکر راشد شاز کے دامِ تزویر سے بچ سکے۔
آپ کا ارادہ تھا کہ مظاہر علوم وقف سہارنپور میں ایک ایسا تعلیمی شعبہ قائم کیا جائے جس میں نئے فتنوں اور ان کے نئے رہبروں سے علمی بنیادوں پر دلائل کے ساتھ مقابلہ کیا جائے۔ افسوس! شعبہ کے قیام سے پہلے ہی آپ کو رب قدیر و قادر کے یہاں سے بلاوا آگیا۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔
(جاری ہے)
(تیس ربیع الاول چودہ سو سینتالیس ہجری)
---------------
0 تبصرے