یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط نمبر 31)
(ناصرالدین مظاہری)
آپ دعوتوں کے شوقین نہیں تھے۔ مدرسہ کے مفاد، قدیم تعلقات یا سابق ناظم فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسینؒ کے عقیدت مندوں، اہلِ تعلق اور خود آپ سے والہانہ محبت رکھنے والے جب دعوت کرتے تو جانا ہی پڑتا تھا۔ پھر بھی آپ صرف دوپہر کی دعوتیں ہی قبول کرتے تھے، رات کی کوئی دعوت قبول نہیں کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ شہروں میں رات کی دعوتیں دس گیارہ بجے تک ہوتی ہیں اور کھانا بھی کافی مُرغّن اور ثقیل ہوتا ہے۔ یہ مرغّن کھانا فائدہ کم اور نقصان زیادہ پہنچاتا ہے۔
آپ عموماً اور اوّلاً دعوت کرنے والے کو سمجھاتے اور منع کرتے تھے۔ اگر داعی پھر بھی مصر ہوتا تو فرماتے کہ:
“میں اکیلے نہیں آتا، دو تین افراد مزید ہوسکتے ہیں، اس لیے دعوت مت کرو۔”
پھر بھی اگر کوئی اصرار کرتا تب قبول کر لیتے۔
میں نے کھانے کے دوران بھی اور کھانے کے بعد بھی کبھی کھانے میں نقص یا کمی نکالتے نہیں دیکھا، بلکہ عموماً کھانے کی تعریف ہی کرتے تھے۔
بہت دلچسپ واقعات دعوت کے دوران پیش آتے رہتے تھے۔ ایک دیہات میں دعوت تھی، کئی افراد ساتھ تھے۔ ایک صاحب تھوڑا کھا کر فارغ ہوگئے تو میزبان نے بریانی آگے کرتے ہوئے کہا:
“اجی اور کھالیجیے۔”
ان صاحب نے منع کیا تو دیہاتی نے کہا:
“اجی کھالو، موت ہی تو ہے۔”
حضرت یہ سن کر بہت ہنسے۔ دیہاتی کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ تو چاول ہیں، چاول زود ہضم ہوتے ہیں، اس میں کوئی غذائیت نہیں ہوتی۔ یہ تھوڑی ہی دیر میں پانی بن کر پیشاب کے راستے نکل جائیں گے۔
ایک مرتبہ حضرت نے سنایا کہ حضرت مولانا محمد سالم قاسمی دیوبندیؒ کسی دعوت میں تشریف لے گئے۔ کسی نے آپ کی پلیٹ میں کچھ زیادہ ڈال دیا۔ آپ نے جتنا کھانے کی گنجائش تھی کھا لیا، باقی پلیٹ میں چھوڑ دیا۔ میزبان شاید جری تھا یا قدیم تعلق رکھتا تھا، برجستہ کہنے لگا:
“اجی حضرت! پلیٹ صاف کرنا سنت ہے۔”
اس پر حضرت بھی برجستہ بولے:
“بے شک پلیٹ صاف کرنا سنت ہے، مگر جان بچانا تو فرض ہے، اور فرض مقدم ہے سنت پر۔”
آپ کو دال سے کبھی مناسبت نہیں رہی۔ گوشت پسند کرتے تھے مگر بوائلر فارمی مرغے بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔
اگر اجتماعی دعوت ہوتی تو آپ دیگر شرکاء کو مقدم رکھتے تاکہ وہ پہلے اپنی مرضی سے جو چیز اپنی پلیٹ میں نکالنا چاہیں نکال لیں۔ خود سب سے بعد میں لیتے۔ تاکید بھی کرتے رہتے کہ مرغ وغیرہ کی ٹانگ یا جو بھی ایسی چیز ہو جس پر سب کی نظر ہو، وہ بالکل مت لیجیے، کیونکہ ایسے موقع پر نظر لگنے کا احتمال ہوتا ہے۔
دہلی میں ایک صاحب کے یہاں دعوت تھی۔ میزبان نے پرتکلف کھانا تیار کرایا۔ ویسے بھی پرانی دلی والے عام بھارتیوں کی بہ نسبت عمدہ کھانا کھاتے ہیں۔ میزبان نے از راہِ محبت حضرت ناظم صاحب کی پلیٹ میں پائے کچھ زیادہ ڈال دیے۔ لوگ بہت تھے۔ اسی دسترخوان پر ناظم صاحب کی طبیعت خراب ہوگئی اور کئی دن بیمار رہے۔
(جاری ہے)
(یکم ربیع الثانی ۱۴۴۷ھ)
------------
0 تبصرے