یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط نمبر 33)
( ناصرالدین مظاہری)
حضرت کی انفرادی خصوصیات:
حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ کے مزاج میں کئی انفرادی خصوصیات تھیں۔ وہ اکثر مسائل پر اپنی آزاد رائے رکھتے تھے، اور چاہتے تھے کہ دوسروں کو بھی اتفاق و اختلاف کی پوری آزادی حاصل ہو۔
ان کی گفتگو میں ہمیشہ دلیل، توازن اور امت کی فلاح کا پہلو نمایاں رہتا تھا۔ اسی ذیل میں ان کی بعض آراء اور واقعات قابلِ ذکر ہیں۔
پہلا واقعہ: اسپتال میں مسجد کے قیام کا مطالبہ
کچھ لوگوں نے کوششیں شروع کیں کہ سہارنپور کے مولانا محمود الحسن دیوبندی نامی پی جی آئی (جو سماج وادی پارٹی کی کوششوں سے اتنا بڑا اسپتال بنا) میں مسجد قائم ہونی چاہیے۔ اسی طرح شہر کے سب سے بڑے ضلع اسپتال میں بھی مسجد نہ ہونے کی وجہ سے وہاں بھی مسجد کی تعمیر کا مطالبہ ہوا۔
قاضی رشید مسعود مرحوم سہارنپور کے تھے اور وزیر صحت رہے، مگر انھوں نے بھی کبھی اس پہلو پر غور نہیں کیا۔
یہ درد اور فکر لے کر کچھ لوگ مظاہر علوم وقف تشریف لائے، کیونکہ مظاہر علوم سے اگر کوئی آواز یا پیغام قوم کو دیا جاتا ہے تو لوگ بہت سنجیدگی سے سنتے اور عمل کرتے ہیں۔ ناظم صاحب سے ملاقات ہوئی اور ان کی رائے طلب کی گئی۔
ناظم صاحب کی رائے:
ناظم صاحب نے فرمایا:
"جہاں تک مجھے معلوم ہے ضلع سرکاری اسپتال کے لئے جس شخص نے زمین وقف کی ہے ان کا نام سیٹھ بلدیو داس ہے، اور انھوں نے کسی مسجد، مدرسہ یا مکتب کے لئے یہ جگہ دی ہی نہیں بلکہ صرف اسپتال یعنی صحت مرکز کے لئے دی ہے۔
شرعی مسئلہ یہ ہے کہ اگر کسی مسلمان نے بھی کوئی زمین کسی خیر کے کام کے لئے وقف کی ہے تو ہمیشہ واقف کی منشاء کے مطابق ہی کام ہوگا۔ اس لئے شرعاً و قانوناً آپ کا یہ دعویٰ قابلِ قبول نہیں ہے۔"
یہ سن کر وہ لوگ واپس ہوگئے اور معاملہ ختم ہوگیا۔
دوسرا واقعہ: جلوسِ محمدی پر گفتگو
شہر سہارنپور میں پہلے بریلویت نہیں تھی، مگر ایک حکیم صاحب کے ذریعہ یہاں بھی اس کا آغاز ہوا۔ حضرت مفتی مظفر حسین کے زمانے میں بارہ ربیع الاول کو جلوسِ محمدی نکلتا رہا۔ لیکن مفتی صاحب کے بعد کچھ حضرات نے کوشش کی کہ یہ جلوس بند ہونا چاہیے۔
اس مقصد سے کچھ لوگ مظاہر علوم آئے اور ناظم صاحب سے گزارش کی کہ وہ اس کی روک تھام کریں۔ ناظم صاحب نے مصلحتاً انھیں کوئی صاف جواب نہیں دیا، مگر بعد میں ارشاد فرمایا:
"یہ ملک ہندوستان ہے، یہاں ہمارا دین، ہماری شریعت اور ہمارے شعائر مقدسہ سب حکمرانوں اور ہم وطنوں کو خارِ مغیلاں کی طرح چبھتے ہیں۔
بھارت میں اپنی طاقت کے اظہار کے جو بھی مواقع ہوں ان کو بروئے کار لانا دانش مندی ہے۔ میں جلوس کے قیام اور شروعات کا حامی نہیں، مگر چونکہ یہ جلوس ناموسِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر نکل رہا ہے اور پہلے سے نکل رہا ہے، تو بھارت جیسے کفریہ و شرکیہ ملک میں اسے جاری رہنے دینا بہتر ہے۔
جب ہر روز ہنود کے طرح طرح کے جلوس نکلتے ہیں اور ہم ان پر کوئی اعتراض نہیں کرتے، تو جلوسِ محمدی سے کیا نقصان ہوگا؟ نکلنے دو تاکہ اغیار کو احساس رہے کہ یہ تعداد میں بہت زیادہ ہیں۔"
حضرت کی فکری روش اور اتحاد کی سوچ:
ناظم صاحب کا مزاج بہت منفرد تھا۔ وہ اسلام کے نام پر قائم مختلف مسالک اور طبقات میں کسی بھی نکتے پر اتحاد کے خواہاں رہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا:
"جب سرخیل حضرات مسلم پرسنل لا بورڈ میں یک سَر اور یک سُر ہوسکتے ہیں، تو باہر بھی یک آواز اور یک جُٹ کیوں نہیں ہوسکتے؟"
وہ شوافع، حنابلہ، مالکیہ اور احناف کے درمیان بھی کسی اختلاف کے قائل نہ تھے۔ فرمایا کرتے:
"جو اختلاف رحمت تھا ہم لوگوں نے اسے زحمت بنا دیا۔ حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل، حضرت امام مالک— بھلا ان کا کون دشمن ہوسکتا ہے؟ اور کون دشمنی کرکے اپنی عُقبیٰ برباد کرے گا؟
لہٰذا ان کے مسالک کو رحمت ہی رہنے دیا جائے، زحمت کیوں بنایا جائے؟"
(جاری ہے)

0 تبصرے