یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط نمبر 34)
(ناصرالدین مظاہری)
حضرت کی انفرادی خصوصیات:
حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ خالص تدریسی میدان کے آدمی تھے۔ انھیں حقیقت میں کبھی بھی نظام اور نظامت سے پیار نہیں رہا۔ میں خود کئی بار کا شاہد ہوں، اکیلے میں کبھی بات چلتی تو کہتے کہ مجھے نظام و نظامت بالکل پسند نہیں ہے۔ نہ ہی کبھی چاہا اور نہ سوچا کہ آگے چل کر مجھے نظامت کے چکر میں اپنی پسندیدہ کتابوں سے ہی دست بردار ہونا پڑے گا۔
نئی نئی نظامت تھی۔ نظامت سے پہلے میری بے تکلفی بلکہ دوستی ہی تھی۔ ہنسی مذاق، لطائف، چٹکلے اور زبردستی کی چائے وائے خوب چلتی تھی۔ مجھے نہیں پتہ کہ آپ میرے حجرے کے علاوہ کس ملازم یا مدرس کے کمرے میں بے تکلف آتے جاتے ہوں۔ یہ ان کا بڑکپن تھا۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں آئینہ مظاہرعلوم کا نیا نیا معاون مدیر بنایا گیا تھا۔ آپ دارالحدیث کے متصل چھوٹے سے حجرے میں تشریف لائے، بڑی دیر تک بات کرتے رہے۔ میری تنخواہ تو اس وقت اتنی تھی کہ بتاؤں گا ہی نہیں، اور خود ناظم صاحب کی تنخواہ بہت کم بلکہ اقل قلیل تھی۔ ادھر بچوں کی آمد کا یہ عالم کہ "تو چل میں آتا ہوں"۔ مجھ سے مٹھائی کی فرمائش کی۔ میں نے کہا کہ میرے پاس روح افزا کی نئی بوتل رکھی ہے، شربت سے کام چلالیجیے۔ کہنے لگے: "بالکل!" چنانچہ شربت بنانے لگا تو چینی کے ڈبے کو اٹھا کر اوپر رکھ دیا اور کہا کہ صرف روح افزا سے میٹھا کیجیے۔
ایک دن کہنے لگے: "میرے گھر میں تین فیملیاں ہیں۔ نیچے تایا ابا (فقیہ الاسلام حضرت مفتی مظفر حسینؒ) کی رہائش ہے۔ اوپر ایک کمرے میں میری اور دوسرے کمرے میں میرے والد ماجد کی رہائش ہے۔ کشادہ مکان کی سخت ضرورت ہے، مگر مالی حالت ایسی نہیں کہ مکان یا زمین خرید سکوں۔ اسی لیے میرا ایک بچہ عموماً دیوبند ننہال میں ہی رہتا اور پڑھتا ہے۔"
میں نے کہا کہ ناظم صاحب کو درخواست دیجیے کیونکہ مدرسہ کے پاس اوقاف اس قدر ہیں کہ فی کس کئی کئی مکان دے سکتے ہیں۔ بہرحال إن مع العسر یسرا۔ آپ نے قلتِ تنخواہ کا خوب مقابلہ کیا ہے اور اسی لیے لوگوں کی مشکلات کو خوب سمجھتے تھے۔
نظامت ملنے کے بعد میں نے ان کا احترام بحیثیت ناظم کرنا شروع کیا اور "ہاں" کی جگہ "جی" کہنے لگا، "تم" کی جگہ "آپ" زبان پر فٹ ہوگیا۔ ساتھ چلنے کے بجائے پیچھے چلنے کو اپنی سعادت سمجھنے لگا۔ اسی طرح کا کوئی موقع تھا، مجھ سے کہنے لگے:
"یہ نظامت بھی عجیب چیز ہے۔ اپنے پرائے ہوجاتے ہیں، بے گانے تعلق جوڑ لیتے ہیں۔ جن سے بہت بے تکلفی تھی وہ خود تکلف کرنے لگے۔ مولانا ریاض کے کمرے میں گھنٹوں پڑا رہتا تھا، اب جاؤ تو وہ بھی مؤدب بیٹھ جاتے ہیں۔ آزاد زندگی کی بہار ہی ختم ہوگئی ہے۔"
ایک دن سر تھامے بیٹھے تھے۔ میں نے پوچھا: "کیا ہوا؟" کہنے لگے:
"سر میں درد رہتا ہے۔ جب تک نظامت نہیں ملی تھی، بہت عیش کا زمانہ تھا۔ مطالعہ اور پڑھانا بس یہی کام تھا۔ اب ہر وقت کوئی نہ کوئی آتا رہتا ہے، ٹینشن دیتا رہتا ہے۔ ہر کوئی کسی کی شکایت ہی کرتا ہے، کوئی کسی کی کوئی خوبی نہیں بتاتا۔ کیا اتنا بڑا اسٹاف خراب ہوسکتا ہے؟ نہیں! ایسا نہیں ہوسکتا۔ تو پھر لوگ ایک دوسرے کی شکایت کر کے کیا پائیں گے؟ صرف گناہ، غیبت اور چغل خوری!"
میں نے کہا: "آپ جانشینِ فقیہ الاسلام ہیں، صرف جگہ کے جانشین نہیں، ان کی تمام ٹینشنوں کے بھی جانشین ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کیجیے کہ مفتی صاحب جیسی بیماریوں سے محفوظ ہیں۔"
دو چار سال پہلے کی بات ہے۔ بڑی الجھن اور ٹینشن میں تھے، شاید مدرسہ کا کوئی فکرانگیز معاملہ تھا۔ مجھے کوئی بات تو نہیں بتائی، لیکن سرگوشانہ کہنے لگے:
"مفتی ناصر! میں ان جھمیلوں سے الگ تھلگ رہنا اور ہونا چاہتا ہوں، یعنی نظامِ مدرسہ سے دست بردار ہوکر پڑھنے پڑھانے میں اپنا وقت لگانا چاہتا ہوں۔"
میں نے کہا: "ٹھیک ہے، آپ استعفیٰ دے کر نظامِ مدرسہ کو درمیان میں چھوڑ دینے پر قادر ہیں۔ سفینہ ساحل پر پہنچا نہیں اور آپ موجِ دریا کے حوالے کردینا چاہتے ہیں؟ تھوڑی دیر کے لیے یہ سوچئے کہ کن حالات میں اکابر اور عوام نے مدرسہ کے لیے آپ کو کیا سوچ کر منتخب کیا تھا، اور آپ ان سب کے حسنِ انتخاب کو استعفیٰ دے کر غلط ٹھہرانا چاہتے ہیں؟
سوچیں! اگر اللہ تعالیٰ نے پوچھ لیا کہ ان حالات میں جب مدرسہ اندرونی و بیرونی مشکلات سے نبرد آزما تھا، آپ نے راہِ فرار کیوں اختیار کی؟ کیوں سینہ سپر رہ کر معرکۂ کارزار میں ڈٹے نہیں رہے؟ کیوں ادارہ کو نااہلوں کے حوالے کردیا؟ تو کیا آپ کے پاس کوئی جواب بن پڑے گا؟ اور کیا آپ اللہ پاک کے غصہ سے بچ سکیں گے؟"
خوب یاد ہے، ایک زور کی جھرجھری لی۔ سر نیچے کرکے کافی دیر تک گم صم بیٹھے رہے۔ جب نگاہ اوپر کی تو آنکھوں میں آنسو کی نمی دکھائی صاف دے رہی تھی۔
(جاری ہے)
(سات ربیع الثانی چودہ سو سینتالیس ہجری)
0 تبصرے