65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (35)

 


یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ


(قسط نمبر 35)

(ناصرالدین مظاہری)


حضرت کی انفرادی خصوصیات


حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ حق بات سننے میں بھی اعلی ظرف تھے۔


ایک دن کوئی مہمان دور سے تشریف لائے اور کہنے لگے کہ:

"میں نے سنا ہے کہ آپ کی تنخواہ نہیں کٹتی ہے، کتنی بھی غیر حاضری کرلیں؟"


قبل اس کے کہ ناظم صاحب جواب دینا شروع کرتے، ٹھیک اسی وقت خزانچی مولانا محمد ارشاد مرحوم دفترِ اہتمام میں رجسٹر کے ساتھ حاضر ہوئے اور تنخواہ کا ایک لفافہ پیش کرتے ہوئے وصول یابی کے دستخط کرانے چاہے۔


ناظم صاحب نے پوچھا:

"اس ماہ میری تنخواہ کٹی ہے یا نہیں؟"


مولانا نے جواب دیا:

"جی، اتنے ہزار روپے کٹی ہے۔"


ناظم صاحب مسکرائے اور ان صاحب کی طرف رخ کرتے ہوئے فرمایا:

"یہ اتفاق کی بات ہے کہ آپ کو جواب بھی مل گیا اور مجھے جواب دینا بھی نہیں پڑا۔"


نظامت ملے شاید پانچ چھ سال ہوئے ہوں گے کہ ایک دن میں حاضر ہوا تو فرمایا:

"فلاں استاذ ابھی اضافۂ تنخواہ کی درخواست لے کر آئے تھے، آپ انھیں سمجھائیں کہ زیادہ درخواست دینا مناسب نہیں ہے۔"


میں نے عرض کیا:

"حضرت! تقریباً سو لوگوں کا عملہ آپ کے ماتحت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیادت اور قیادت کے لئے آپ کو چُنا ہے۔ کچھ تو وجہ رہی ہوگی کہ آپ سے زیادہ بڑے، آپ سے زیادہ اہلِ علم، حتیٰ کہ آپ کے والد ماجد اور اساتذہ بھی موجود ہیں اور سب آپ کے ماتحت ہیں۔ یہ فیضانِ خداوندی ہے۔


اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجیے کہ اس نے آپ کو مقامِ ممتاز و امتیاز عطا فرمایا ہے۔ تھوڑی دیر کے لئے سوچیں کہ اس کے برعکس بھی تو ہوسکتا تھا۔ یعنی آپ ان استاذ صاحب کی جگہ بھی تو ہوسکتے تھے اور اللہ تعالیٰ تو ہر چیز پر قادر ہیں۔ اگر درخواست دہندہ آپ ہوتے اور مسند پر وہ براجمان ہوتے تو کیا ہوتا؟


ممکن ہے کہ میری یہ بات نہایت قلیل وقت کے لئے آپ کو گراں گزرے لیکن سچ یہی ہے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔ اگر وہ آپ سے درخواست کررہے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام کا حصہ ہے۔


آپ اپنی جیب سے نہیں دیں گے، نہ ہی وہ بے ضرورت اور بغیر استحقاق کے مطالبہ کررہے ہیں۔ مہنگائی اپنا پھن پھیلائے ہوئے ہے، آپ بے شک تنخواہ نہ بڑھائیں، مہنگائی بھی نہ بڑھنے دیں، ہرگز کوئی درخواست نہیں دے گا۔


اللہ کا شکر ہے کہ آپ کثیر العیال ہیں، خرچے زیادہ اور آمدنی کم ہے، مگر اب اللہ تعالیٰ کا شکریہ کہ مسندِ نظامت پر مسند نشین ہونے کے بعد اہلِ تعلق اور عقیدت مندوں کی طرف سے نذرانے اور ہدایا بھی خوب آرہے ہیں۔ وہ ٹھہرے استاذ، بھلا استاذ کو کون دیتا ہے؟


اگر آپ کہیں تو میں خود اپنی ایک ماہ کی تنخواہ آپ کے حوالے کردیتا ہوں۔ بس آپ اس مہینے کا مکمل ہدیہ، چاہے گھر پہنچے یا آپ کے ہاتھوں میں پہنچے، وہ ہدیہ آپ مجھے دیدیں۔ نقصان میرا ہوگا تو منظور، آپ کو ہوگا تو منظور۔"


ناظم صاحب دیر تک سوچتے رہے، پھر فرمایا:

"شوری ہونے والی ہے، ان سے کہو کہ اجتماعی دستخط کے ساتھ درخواست دیدیں۔"


چنانچہ درخواست دی گئی اور فی کس دو دو ہزار روپے اضافہ ہوا۔


اصل میں ناظم صاحب سے اگر کوئی بات سلیقہ سے کی جاتی تو وہ مکمل طور پر سنتے بھی اور مانتے بھی۔ لیکن بعض لوگ ایسے ہیں کہ وہ درخواست نہیں کرتے بلکہ حکم دیتے ہیں۔ ضرورت کا اظہار نہیں بلکہ مطالبہ ہی کردیتے ہیں۔ فرصت نہیں رکھتے اور نقد عمل چاہتے ہیں۔


> بات گرچہ بے سلیقہ ہو کلیم

بات کرنے کا سلیقہ چاہیے


بعد میں تو ان صاحب کو اتنی تیزی کے ساتھ ناظم صاحب نے ترقی دی کہ سوائے ان کی خوش نصیبی کے اور کیا کہا جاسکتا ہے۔


یہ بات مسند نظامت پر فائز ہونے کے صرف دو یا تین سال بعد کی ہے ۔ میں ایک دن آپ کے پاس دفتر اہتمام میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا ، تازہ تازہ تنخواہ میں اضافہ ہوا تھا ، میری عادت ہے کہ میں اپنے اوپر احسان کرنے والے کا شکریہ ضرور ادا کرتا ہوں چنانچہ میں نے پہلے شکریہ ادا کیا اور پھر ہنستے ہوئے میں نے کہا کہ:

اللہ کا شکر ہے کہ میرے استاذ حضرت مفتی صاحب کا انتقال ہوگیا اور ان کی جگہ آپ مسند اہتمام پر آگئے"

چونکے اور گھبراہٹ میں بولے کہ یہ کیا کہہ رہے ہو؟

میں نے کہا کہ جو اللہ کا فیصلہ ہے اس پر ہم معترض تو ہو نہیں سکتے راضی رہنے میں ہمارے لئے عافیت ہے البتہ یہ سچ ہے کہ حضرت مفتی مظفرحسین رحمہ اللہ کے عہد مبارک میں مجھے چھ سال کام کرنے کی توفیق ملی ان چھ سالوں میں میری انتہائی تنخواہ جتنی ہوئی تھی آپ کے دور میں صرف تین سال میں اس سے بھی دوگنا سے زائد ہوچکی ہے تو میں شکر آپ کے عہدۂ اہتمام پر فائز ہونے کا کررہاہوں اور بھی ایک بڑی وجہ حضرت کے دور میں تنخواہیں کم بڑھنے کی یہ رہی کہ حضرت کو حالات کا علم ہی نہیں تھا بازاروں کے نرخ اور ریٹ سے انھیں لینا دینا ہی نہیں رہا، وہ صاحب اولاد بھی نہیں تھے صرف میاں بیوی تھے اس لئے اخراجات کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا اور تیسری بات اور بھی تھی کہ فتوحات کا عظیم سلسلہ تھا یہ صغریٰ کبریٰ ملا کر نتیجہ یہ ہوا کہ ہم لوگوں کی تنخواہیں بہت کم رہیں۔میرا ماننا یہ ہے کہ منتظم کو حالات ، وقتی تقاضوں ، بازار کے نرخ ، عملہ کی ضروریات اور دیگر امور کا بدرجہ اتم علم رہنا چاہیے خالص استاذ درسگاہ میں ، خالص مقرر اسٹیج پر، خالص بزرگ خانقاہ میں ، خالص فقیہ دارالافتاء میں ہی اچھا لگتا ہے۔ فلسفی بازار میں ، سائنٹسٹ اسٹیج پر ، ڈاکٹر منبر پر ، انجینئر ہوسپٹل میں کسی بھی کام کے نہیں ہیں۔


حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ سفرِ حرمین کے علاوہ ہر قسم کے سفر سے بچتے اور کتراتے تھے۔ کبھی کبھی تو لوگوں کو میرے پاس بھیج دیتے کہ ان سے بات کرلو۔ میں سمجھ جاتا اور کوئی نہ کوئی معقول عذر بتاکر سفر کو ملتوی یا مؤخر کرادیتا۔


سفر سے بیزاری اور عدم مناسبت کے باوجود کچھ جگہیں ایسی بھی تھیں جہاں جانے کے لئے آپ مشتاق رہا کرتے تھے۔ چنانچہ ان اہم جگہوں کا ضمناً ہی سہی تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں:


سفرِ حرمین شریفین:


حرمین شریفین کے سفر کے لئے تو آپ ہر وقت ہی تیار رہتے تھے، مگر اس سفر کا اظہار بالکل پسند نہیں تھا۔ حرمین شریفین کے سفر میں آپ کے میزبان حیدرآباد کے بھائی محمد صاحب تھے۔


سفرِ حیدرآباد:


اوپر بھائی محمد صاحب کا نام آیا ہے۔ یہ صاحب حیدرآباد کے رہنے والے ہیں، مہمان نواز ، علماء نواز ، خلیق ، ملنسار ، حکیم و بردبار ہیں اور حضرت سے خوب تعلق رکھتے تھے۔ بلکہ خود حضرت بھی محمد بھائی سے قلبی تعلق رکھتے تھے۔


حضرت ناظم صاحب تقریباً ہر سال عیدالفطر یا عیدالاضحی کے اریب قریب حیدرآباد جاتے تھے۔ وہاں قیام کے دوران بہت خوش اور ہشاش بشاش رہتے تھے۔ بھائی محمد بھی حضرت کی تاریخِ طے ہونے کے بعد ہی اپنے گھر کا رنگ و روغن کراتے تھے۔ لحاف، گدے، تکیے، بیڈ شیٹ، پردے—ساری چیزیں آپ کی تشریف آوری کے وقت ہی بطورِ استقبال تبدیل کی جاتی تھیں۔


حضرت فرصت کے اوقات میں حیدرآباد جانے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے۔


گورکھپور:


گورکھپور میں آپ کے مریدین، معتقدین اور اہلِ تعلق کا بڑا طبقہ موجود ہے۔ حضرت مولانا عبد الجلیل گورکھپوری، بھائی معراج، بھائی جنید احمد، بھائی اسرار، بھائی یوسف، ذکی بھائی، یوسف بھائی، عامر بھسئی، کیف الوری، بدرالدجی، شمس الضحیٰ، سلیم، مفتی محمد حذیفہ امام مظاہری—یہ سب وہ حضرات تھے جن سے ناظم کو بہت قلبی تعلق تھا۔


اسی لئے آپ گورکھپور جانے کے لئے بھی ہمیشہ تیار رہتے تھے۔ میں بھی حضرت کا اکثر رفیق سفر رہتا اور حاجی جنید احمد کے مکان پر قیام رہتا۔


چترا (جھارکھنڈ):


مدرسہ رشید العلوم چترا جھارکھنڈ ایک قدیم مرکزی تعلیمی ادارہ ہے جس کے روحِ رواں حضرت مفتی نذر توحید مظاہری ہیں۔ مفتی صاحب سے بھی حضرت کا ایسا تعلق تھا کہ بار بار تشریف لے گئے۔ وہاں قیام کے دوران طبیعت بڑی منشرح رہتی تھی، دواؤں کی ضرورت بھی نہیں رہتی تھی۔


مدرسہ میں بہت سے اساتذہ سے اچھا خاصا تعارف اور تعلق تھا۔ مفتی صاحب مدظلہ مظاہری ہیں اور ان کے ایک صاحبزادے مولانا احمد بھی مظاہری ہیں، چترا اور قرب و جوار کے قدیم و جدید مظاہریوں کی بڑی تعداد ملاقات کے لئے آتی رہتی تھی۔ یوں محفل مظاہر اکابرِ مظاہر سے لبریز رہتی تھی۔


نوٹ بندی کا واقعہ (2016):


8 نومبر 2016 کی شام 8 بجے وزیر اعظم نریندر مودی نے اچانک اعلان کیا کہ 500 اور 1000 روپے کے پرانے نوٹ بند کر دیے گئے ہیں۔


یہ سنتے ہی ناظم صاحب کو بڑا فکر ہوا کیونکہ بڑے نوٹ ملک کی مجموعی کرنسی کا اسی فیصد سے زیادہ تھے۔ مظاہر علوم وقف سہارنپور میں تنخواہیں اور اخراجات کے سارے مسائل اچانک کھڑے ہوگئے۔ اس وقت ناظم صاحب فرمانے لگے:

"اچھا! مہمانی میں آکر پھنس گئے۔"


لاک ڈاؤن کا واقعہ (2020):


مارچ کے اواخر میں رشید العلوم چترا میں ختمِ بخاری کا پروگرام تھا۔ مفتی نذر توحید صاحب نے ناظم صاحب کو دعوت دی۔ میرا اور ناظم صاحب کا راجدھانی ایکسپریس سے ٹکٹ بھی بھیج دیا۔


جب میں نے ناظم صاحب سے کہا کہ چترا چلنا ہے تو کہنے لگے:

"نہیں بھئی نہیں! چترا جانا بہت خطرناک ہوتا ہے۔ کیا یاد نہیں پچھلی بار کیا ہوا تھا؟ نوٹ ہی بند ہوگئے تھے!"


میں نے کہا: "اجی وہ تو مقدر تھا، ہوگیا۔ آپ چلیں۔"


بہرحال ٹرین میں بیٹھ گئے۔ مگر جیسے ہی ہم دہلی اسٹیشن پر پہنچے تو ماحول میں سنّاٹا تھا۔ ناظم صاحب بولے:

"اب بھی کہہ رہا ہوں واپس چلیں، کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔"


اور ہوا بھی ایسا! 22 مارچ 2020 کو وزیر اعظم نریندر مودی کی اپیل پر "جنتا کرفیو" نافذ ہوگیا۔ ناظم صاحب بہت پریشان ہوئے۔ فلائٹ بند، ٹرینیں بند، نظامِ زندگی جام۔


بہرحال درگیانا یا اکال تخت سے فوراً ٹکٹ بنوایا گیا۔ پورا سفر سنّاٹے میں گزرا۔ سہارنپور پہنچنے پر بھی سخت پابندیاں تھیں۔ مولانا احمد میرٹھی نے افسرانِ بالا سے منظوری لے کر ریلوے اسٹیشن تک کار لے کر آگئے۔ یوں اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ہم مدرسہ پہنچے۔


ایک اور دلچسپ واقعہ:


ایک بار سردیوں میں غازی آباد اسٹیشن پر ہم چترا جانے کے لئے بیٹھے مگر ٹرین نہ آئی۔ زیادہ تاخیر پر قریب ہی محمد طارق مظاہری ہرسولی کے گھر قیام کیا۔ ٹرین کی آمد کے انتظار میں رات کا اکثر حصہ گزر گیا اور یقین ہوگیا کہ اب اگر ٹرین آبھی جائے اور ہم لوگ چترا پہنچ بھی جائیں تو بھی پروگرام میں شرکت ممکن نہیں رہی چنانچہ منتظمین نے ہی پیغام بھیجا کہ اب آنے کا پروگرام کینسل کردیں اور اس طرح ہم غازی آباد سے واپس مظاہرعلوم آگئے۔


ناظم صاحب کہنے لگے:

"مفتی ناصر! چترا کے ساتھ ہی یہ سب کیوں ہوتا ہے؟"


گیا کا واقعہ:


ایک دفعہ آپ چترا سے واپسی پر گیا ریلوے اسٹیشن پہنچے۔اچانک اعلان ہوا کہ ٹرین کینسل کر دی گئی ہے۔ ناظم صاحب نے مجھے فون کیا اور کہا:

"اس بار ٹرین ہی کینسل ہوگئی ہے یعنی کچھ نہ کچھ گڑبڑ پھر بھی ہوگئی ہے!"


میں نے فوراً عرض کیا: "میں ابھی جہاز کا ٹکٹ بناتا ہوں، آپ گیا ایئرپورٹ سے دہلی آجائیے۔"


چنانچہ یہی ہوا۔ آپ دہلی پہنچ گئے اور لمبا سانس لے کر ہنستے ہوئے فرمایا:

"واہ رے چترا! تیرا بھی جواب نہیں—ہر سفر تاریخی اور ہر پروگرام یادگار!"


الہ آباد:


شیخ طریقت حضرت مولانا شاہ محمد قمر الزماں الہ آبادی مدظلہ سے غایت تعلق و عقیدت تھی اور خود حضرت الہ آبادی بھی بہت زیادہ شفقت و محبت فرماتے تھے چنانچہ دونوں ہی حضرات ایک دوسرے کے یہاں آنے پر ہمیشہ تیار رہتے تھے لیکن حضرت الہ آبادی چونکہ بہت زیادہ کمزور اور نحیف ہوچکے ہیں اس لئے چاہت کے باوجود زیادہ نہیں آپاتے تھے البتہ ناظم صاحب ماشآء اللہ جوان تھے شجیع اور حوصلہ مند تھے کبھی ٹرین ، کبھی کار اور کبھی جہاز سے بھی الہ آباد جاتے رہتے تھے۔ بلکہ بار بار مجھے بلاکر پتہ کراتے کہ معلوم کرو حضرت الہ آباد میں ہیں یا سفر میں۔


کیرانہ ضلع شاملی:


کیرانہ میں آپ کے شاگرد عزیز مولانا عبدالجبار مظاہری کا گھر ہے، حضرت ناظم صاحب سے پورا گھرانہ شدید محبت و تعلق رکھتا تھا بار بار بلکہ ہر بار ان کی دعوت اور بلاوے پر حضرت ناظم صاحب اپنے پہلے سے طے شدہ نظام کو آگے پیچھے دائیں بائیں یا کم زیادہ کرکے کیرانہ بکثرت تشریف لے جاتے تھے اور پوری بشاشت کے ساتھ رہتے تھے۔


(جاری ہے)

(آٹھ ربیع الثانی چودہ سو سینتالیس ہجری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے