یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط نمبر چار)
(ناصرالدین مظاہری)
آپ کی عادت تھی کہ آپ کی کوئی عادت نہ تھی۔
ناظم تھے، اور کیا ہی ناظم تھے! مئی جون کی چلچلاتی دھوپ میں جب سبھی اپنے حجروں میں آرام کر رہے ہوتے، ناظم صاحب اچانک کسی عمارت میں داخل ہو کر معائنہ اور جائزہ لیتے۔ بارش کا موسم ہے، اور ہر شخص سوچ رہا ہے کہ آج تو آنا ممکن ہی نہیں ہے؛ مگر حیرت ہوتی جب پتہ چلتا کہ ناظم صاحب تو دفتر اہتمام میں بیٹھے ہیں۔ چھٹی کے دنوں میں بھی نگرانی اور اچانک دورہ کر لیتے تھے۔
غالباً مئی یا جون کا مہینہ تھا۔ روح کو جھلسا دینے والی گرمی تھی۔ مدرسہ میں بالکل سناٹا تھا، ہو کا عالم تھا۔ ناظم صاحب اچانک دارالطلبہ قدیم پہنچ گئے۔ وہاں پہلے سے ایک صاحبِ خیر کسی استاد یا ملازم کی تلاش میں تھے۔ ان کے پاس ایک خطیر رقم تھی۔
ناظم صاحب سے اچانک ملاقات پر وہ صاحب بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ:
"مجھے ابھی سورت واپس جانا ہے۔ مدرسہ کی ایک امانت میرے پاس ہے، وہ میں آپ کے حوالہ کر دیتا ہوں۔ آپ شام کو مدرسہ کھلنے پر جمع کرا دیجیے گا۔"
حضرت مولانا محمد سعیدی صاحب رحمہ اللہ نے صاف منع کر دیا اور فرمایا:
"یہ مدرسہ کی امانت ہے، ابھی مدرسہ کھلنے میں بہت دیر ہے۔ میں یہ امانت اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ اگر مدرسہ کھلنے سے پہلے مر گیا تو کیا ہوگا؟ بہتر یہی ہے کہ آپ مہمان خانے میں قیام فرمائیں، نماز کے بعد رقم مالیات میں جمع کریں، پھر جائیں۔ دوسری شکل یہ ہے کہ رقم آپ لیتے جائیں، پہنچ کر آن لائن مدرسہ کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دیں، رسید ڈاک سے بھیج دی جائے گی۔"
وہ صاحب رک گئے، اپنی ٹرین چھوڑ دی، ظہر کے بعد مالیات میں یہ امانت جمع کی۔ اور بہت ہی حیرت و مسرت کے ساتھ کہتے رہے کہ:
"پہلا مہتمم دیکھا ہے جس نے اتنی بڑی رقم کی طرف کوئی دھیان ہی نہیں دیا، ہاتھ لگانا بھی گوارہ نہیں کیا!"
مظفر نگر سے کچھ لوگ آئے ، دوپہر کا وقت تھا ، انھیں بھی مدرسہ میں" ایک روپیہ " جمع کرنا تھا حضرت کے گھر پہنچ گئے ، رقم دینی چاہی اور عرض کیا کہ شام کو آپ مدرسہ میں جمع کرادیجیے گا اور رسید واٹسپ سے بھیجوادیجیے گا ۔حضرت نے رقم نہیں لی۔وہ کہنے لگے کہ ہمیں رائے پور بھی جانا ہے واپسی میں دیر ہو جائے گی تو حضرت نے خزانچی مولانا نعیم احمد صاحب کے پاس اپنے خادم محمد انس سلمہ کے ذریعہ ان لوگوں کو بھیجا اور تب جاکر رقم جمع ہوسکی۔
بعض سفروں میں علاقائی سفراء نے چاہا کہ مدرسہ کی رقم حضرت اپنے ساتھ مدرسہ لے جائیں اور مالیات میں اس سفیر کے نام علی الحساب جمع کرا دیں۔ آپ کو سن کر تعجب ہوگا کہ نہ حضرت نے رقم لی، نہ مجھے لینے دی، اور یہی فرمایا:
"امانت بہت بڑی ذمہ داری ہے!"
(23/محرم الحرام چودہ سو سینتالیس)
---جاری ہے۔۔۔۔۔
0 تبصرے