یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط نمبر چھ )
ناصرالدین مظاہری
زیادہ دن نہیں ہوئے، ٹرین کے ایک لمبے سفر میں نماز کا وقت ہو گیا۔ اگرچہ اے سی میں سفر تھا، لیکن حکومتِ وقت کے ایما و اشارہ، بلکہ مطالبہ پر عوامی جگہوں پر "صرف نماز" پڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس پابندی میں تمام قسم کے کوٹ سے کورٹ تک سبھی کی مکمل حصہ داری تھی۔
ناظم صاحب نے مجھ سے کہا:
"نماز کیسے پڑھی جائے؟"
میں نے کہا: "وضو واش بیسن میں کر لیجیے، نماز دونوں سیٹوں کے درمیان کھڑے ہو کر پڑھ لیں۔"
ناظم صاحب نے فرمایا:
"کیبن والوں کو اعتراض تو نہیں ہوگا؟"
میں نے کہا:
"اعتراض کیوں ہوگا؟ یہ اگر اپنے دھرم کی عبادت کریں تو ہمیں اعتراض نہیں ہوتا۔ یہ لوگ شادی برات میں ڈی جے بجاتے ہیں، جلوس نکالتے ہیں، ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔ حتیٰ کہ کانوڑ یاترا کے موقع پر لوگوں کا کروڑوں کا نقصان ہو جاتا ہے۔ اس نقصان میں اگرچہ سبھی شریک ہیں، لیکن عبادت تو انہی کی ہے، اور جھیلنا ہم سب کو پڑتا ہے۔ تو جب ہمیں ان کے طریقۂ عبادت پر اعتراض نہیں ہے، تو انھیں ہماری نماز سے کیا شکوہ؟ ویسے بھی نماز میں نہ تو ہم شور کرتے ہیں، نہ گندگی کرتے ہیں، نہ لوگوں کو تکلیف دیتے ہیں، نہ ٹریفک جام کرتے ہیں۔ اور سفر میں تو دو یا تین رکعت ہی فرض ہیں، یعنی پانچ منٹ مشکل سے لگتے ہیں۔ اور ہاں! ہم تو شرابیوں کو ان کی خرابیوں کے باوجود برداشت کرتے ہیں، جواریوں سے اعراض کرتے ہیں۔ جہاں جہاں سے کانوڑ کا گزر ہوتا ہے، سڑکیں گندگی سے، قیام کے لیے نامزد جگہیں سو فیصد شور شرابے اور ہلا گلا سے آسمان سر پر اٹھا لیتی ہیں۔ تیز گانوں کی وجہ سے ہماری عبادتیں اور ہمارے کلاس روم، یہاں تک کہ اونچی عمارتوں میں وائبریشن ہونے لگتا ہے۔ ان سب کے باوجود جب ساتھ رہنا ہے تو ایک دوسرے کو سہنا ہے۔"
خیر، ہمراہی ساتھیوں نے میری یہ مشفقانہ، ہمدردانہ اور امدادِ باہمی پر مشتمل منصفانہ باتیں سن کر کہا:
"بھلا نماز سے کسی کو کیوں اعتراض ہوگا؟"
اتنا کہہ کر ان لوگوں نے درمیانی حصہ سے اپنے چپل جوتے ہٹا لیے، جگہ خالی کر دی، اور ناظم صاحب نے شوق سے کھڑے ہو کر پُرسکون نماز ادا کی۔ نماز کے بعد انہی برادرانِ وطن سے باتیں ہونے لگیں۔ ایک صاحب کہنے لگے:
"اجی! آپ لوگوں میں گوشت کے لیے جانور کو ذبح کرتے ہیں، کیا یہ ظلم نہیں ہے؟"
ناظم صاحب مجھ سے کہنے لگے:
"مفتی ناصر! یہ کیا پوچھ رہے ہیں؟ یعنی یہ جو پوچھ رہے ہیں، اس کا تسلی بخش جواب دو۔"
میں نے نہایت تحمل، مسکراہٹ اور خندہ پیشانی کے ساتھ بات شروع کی اور کہا:
"صحیح بات یہ ہے کہ آپ لوگ تینوں قسم کے میڈیاز سے متاثر ہیں: یعنی پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، اور سوشل میڈیا۔ یہ وہ پلیٹ فارم ہیں جو آگ بجھانے کا نہیں، آگ لگانے کا کام کرتے ہیں۔ ورنہ سچ یہ ہے کہ گوشت ہم لوگوں سے زیادہ آپ کے دھرم میں ہے۔
ویدوں میں جانوروں کی قربانی کے مواقع پر گائے، بیل، بکری اور دیگر جانوروں کو قربان کرنے کا ذکر موجود ہے۔
یَجُر وید میں گھوڑوں اور گائے کی قربانی کا تصور موجود ہے۔
سماجی تقریبات، مہمان نوازی یا پجاریوں کی خدمت کے موقع پر بیف کھانے کا تذکرہ بھی ہے۔
رامائن اور مہابھارت میں راجاؤں، کشتریوں اور برہمنوں کی گوشت خوری کا ذکر ہے۔
رامائن میں رام جی کے جنگل میں گوشت کھانے اور شکار کرنے کے اشارات بھی ملتے ہیں۔
گائے، بکری وغیرہ کی قربانی کو ویدی احکام کے مطابق قرار دیا گیا ہے۔اور ہاں دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے
جانوروں کی بلی دینے کا قدیم ترین دستور اور رواج آج بھی ہے۔
مسلم ہوٹلوں پر جاکر دیکھیں کتنی بھیڑ برادران وطن کی ہوتی ہے۔
یہ باتیں اتنے خوش گوار ماحول میں ہو رہی تھیں کہ کسی کو برا لگنا تو دور، لوگ سمٹ کر قریب آ کر سن رہے تھے۔
میں نے کہا:
"اصل میں آپ لوگ اپنی ہی دھارمک کتابیں نہیں پڑھتے، کسی کو یوٹیوب سے ہی فرصت نہیں ہے۔ پنڈتوں کو سب کچھ معلوم ہے، لیکن آپ جب اپنی ہی کتابوں کے حوالے سے بات کریں گے تو وہ ڈانٹ ڈپٹ کر چپ کرا دیں گے۔"
"اچھا اور سنیے! ہم لوگ گوشت کھاتے ہیں، لیکن دودھ کے دھلے آپ بھی نہیں ہیں۔ آپ لوگ انڈے کیوں کھاتے ہو؟ انگریزی مصنوعات میں زیادہ تر کھانے کی اشیاء میں خنزیر کی چربی کے ثبوت مل چکے ہیں، مگر سبھی کھاتے ہیں۔ چیپس بھی محفوظ نہیں ہیں۔ بہرحال، اگر گوشت اتنی خراب چیز ہوتی تو دنیا کے اکثر مذاہب گوشت نہ کھاتے۔"
پتہ نہیں ان کی سمجھ میں بات آئی کہ نہیں آئی، بات ختم ہو گئی۔
"آپ کی عادت تھی کہ ٹرین کی سیٹ پر کوئی کپڑا، رومال، چادر وغیرہ بچھا کر بیٹھتے تھے۔ میں ہمیشہ یوں ہی بیٹھ جاتا تھا، تو ایک بار فرمایا:
'ان سیٹوں پر بالکل بھروسہ نہ کرنا۔ ان پر وہ لوگ بھی بیٹھتے ہیں جو پیشاب کے بعد استنجا نہیں کرتے، بلکہ وہ لوگ بھی بیٹھتے ہیں جو پاخانے کے بعد پانی کا استعمال ہی نہیں کرتے۔ اور عورتیں بھی بیٹھتی ہیں، جن کو کبھی بھی ماہواری شروع ہو جاتی ہے۔ اور بچے تو بچے ہیں، وہ کہیں بھی شروع ہو جاتے ہیں۔ اس لیے ان سیٹوں پر بیٹھنے سے پہلے خوب دیکھ بھال کر کے کوئی کپڑا بچھا کر بیٹھا کرو، کیونکہ ہم لوگوں کو ہر وقت نماز پڑھنی ہوتی ہے۔'"
(جاری ہے)
(بارہ صفرالمظفر چودہ سو سینتالیس ہجری)
0 تبصرے