65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (7)

 


یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ


(ناصرالدین مظاہری)


(قسط نمبر سات)


حاجی مطلوب احمد صاحب کیرانہ ضلع شاملی کے ایک تاجر ہیں۔ نیک و شریف اور دیندار ہیں۔ اکابر اہل اللہ سے ہمیشہ قلبی تعلق رکھا ہے اور اب بھی رکھتے ہیں۔


ایک دن مجھ سے بیان کیا کہ میری ایک گاڑی پولیس نے پکڑ لی، میں بڑا پریشان ہوا۔ لوڈ گاڑی کا یوں پکڑا جانا بہرحال پریشان کن تھا، حالانکہ حکومت کو ایک ایک پائی کا ٹیکس دیتا ہوں، پھر بھی ذہنی ٹینشن بہت تھی۔ میں نے اسی پریشانی کی حالت و کیفیت میں حضرت ناظم صاحب کو فون کر دیا اور روداد بتا کر دعاؤں کا طالب ہوا۔ مطلوب احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت بات کرتے رہے اور پھر اچانک کہنے لگے:


"بھائی مطلوب احمد! تمہارا کام ہو گیا ہے، ماشاء اللہ۔ بس فون کاٹو، گاڑی پہنچنے والی ہے۔"


چنانچہ فون پر بات موقوف ہوگئی اور تھوڑی ہی دیر میں گاڑی سلامتی کے ساتھ پہنچ گئی۔


ایک صاحب نے آج ہی بیان کیا کہ میں حضرت کے ساتھ تھا۔ ایک اہلِ تعلق کی بہن بیمار تھی۔ عیادت کے لئے حضرت ناظم صاحب ان کے گھر پہنچے۔ بہن کا حال و احوال پوچھا اور اچانک چلتے وقت مریضہ کے بھائی سے فرمایا:

"بھئی دیکھ ریکھ کرتے رہو اور صبر کرو۔"


خادم کہتا ہے کہ صبر کی تلقین سن کر میرا تو ماتھا ٹھنکا اور پھر چند روز کے بعد ان صاحب کی بہن کا انتقال ہوگیا۔


بہت ہی عجیب صلاحیتوں کے مالک تھے۔ میں نے ان کی حیات میں جو مضمون لکھا تھا، اس میں آپ کے حفظِ حدیث پر بھی لکھا تھا کہ آپ کا مزاج حدیث اور فہمِ حدیث کا ہے۔ بارہا ایسا ہوا کہ میں نے کوئی مضمون لکھا اور مضمون جب حضرت ناظم صاحب کے سامنے پہنچا تو اس میں موجود حدیث شریف کے تعلق سے مجھ سے فرمایا:

"مفتی ناصر! آپ نے فلاں مضمون میں جو فلاں حدیث لکھی ہے، میرا خیال ہے کہ یہ حدیث نہیں ہے۔"


چنانچہ جب تحقیق کی گئی تو واقعی وہ کسی صحابی کا قول یعنی تھا، حدیث نہیں۔


اسی طرح ایک دفعہ میں نے ایک مضمون لکھا جس میں حضرت ایوب علیہ السلام کا تذکرہ ضمناً تھا اور اس میں آپ کی بیماری اور زخموں کا بطورِ خاص ذکر تھا۔ یہ مضمون جب ناظم صاحب کے سامنے پہنچا تو پڑھا اور ملاقات پر کہنے لگے:


حضرت ایوب علیہ السلام کے مرض کے بارے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ قرآنِ کریم صرف یہ بتاتا ہے کہ آپ کو سخت بیماری لاحق ہوئی، مگر اس کی نوعیت بیان نہیں کرتا۔ احادیث میں بھی اس کی کوئی واضح تفصیل موجود نہیں۔


بعض آثار میں ہے کہ آپ کے جسمِ اقدس پر پھوڑے پھنسی نکل آئے تھے، اور بعض میں اس سے بھی بڑھ کر یہ نقل کیا گیا کہ جسمِ مبارک میں کیڑے پڑ گئے تھے۔ لیکن محققین مفسرین و محدثین نے ان روایات کو قبول نہیں کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ انبیاء علیہم السلام ہر اس عیب اور بیماری سے پاک ہوتے ہیں، جس سے لوگ نفرت کریں یا گھن محسوس کریں۔


کیوں؟ اس لئے کہ اگر پیغمبر پر ایسا مرض طاری ہو جو لوگوں کو ان سے دور کردے، تو تبلیغ و دعوت کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ انبیاء تو ہدایت کے چراغ ہیں، اور چراغ کبھی ایسا نہیں ہوتا جو اپنی روشنی سے لوگوں کو قریب لانے کے بجائے اُنہیں دور بھگائے۔


چنانچہ تحقیق کی گئی تو ناظم صاحب کی بات ہی درست نکلی۔ جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں تاکہ حضرت ناظم صاحب کی بات اور فکر مزید پختہ ہو جائے:


فتویٰ:

حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں قرآنِ پاک میں اللہ رب العزت نے صرف ان کی آزمائش و تکلیف کا تذکرہ کیا ہے کہ جس عارضہ میں مبتلا ہوگئے تھے، اس میں ان کے لیے سخت تکلیف اور مشقت تھی۔ البتہ جسمانی تکلیف کی نوعیت کیا تھی؟


اس سلسلہ میں قرآن و حدیث میں کوئی صراحت منقول نہیں ہے، اور بدن میں کیڑے وغیرہ پڑنے کی جو باتیں عوام میں مشہور ہیں، یہ سب غیر معتبر ہیں، نیز مقامِ نبوت اور منصبِ رسالت کے بھی خلاف ہیں، اس لیے ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی انہیں بیان کیا جائے۔


(جاری ہے)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے