یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط نمبر آٹھ)
(ناصرالدین مظاہری)
آپ کے والدِ ماجد حضرت مولانا اطہر حسین رحمہ اللہ بکثرت تلاوت کیا کرتے تھے۔ فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین صحت کے دنوں میں روزانہ ایک قرآن کریم پڑھا کرتے تھے۔
حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ کو بھی قرآن کریم کی تلاوت سے عشق تھا۔ جو لوگ آپ کے پاس ملاقات و زیارت کے لیے آتے جاتے رہے ہیں، وہ گواہی دیں گے کہ عموماً آپ تلاوت میں ہی مصروف رہتے تھے۔ دفترِ اہتمام میں بھی خالی بیٹھنا گوارا نہیں تھا۔ اگر مدرسہ کا کوئی کام ہوتا تو وہ مقدم ہوتا، کوئی ملاقاتی آ جاتا تو علیک سلیک کے بعد پھر مصروفِ تلاوت ہو جاتے۔
سورۂ فتح، سورۂ کہف ، سورۂ یسین اور سورۂ مزمل تو آپ روزانہ پڑھتے تھے۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ سورۂ مزمل کے عامل بھی تھے کیونکہ سورۂ مزمل تو ہر دن چالیس بار پڑھنے کا معمول تھا۔
مجھے بھی فرمایا کہ روز چالیس بیالیس مرتبہ سورۂ مزمل پڑھا کرو۔میں نے پڑھنا شروع کردیا، بیس تیس دن ہی ہوئے ہوں گے کہ مجھے اپنے لحاف میں ایسی شاندار خوشبو محسوس ہونے لگی جو شاید کبھی مجھے میسر نہیں ہوئی۔ میں ڈرگیا،اور سمجھ گیا کہ یہ سب اسی سورۃ کی وجہ سے ہے ۔خیر میں نے اپنا یہ معمول موقوف کردیا ، خوشبو بھی موقوف ہوگئی۔مگر چند دن یا اس سے کچھ زیادہ دن کے بعد پوچھا کہ سورہ مزمل کا معمول جاری ہے ؟مین نے پوری بات بتائی اور عرض کیا کہ اس ڈر کی وجہ سے تسلسل منقطع ہوگیا ہے۔ کہنے لگے چھوڑنا نہیں چاہیے تھا عمل کی تکمیل ہونے والی تھی۔
اندازہ ہے کہ آپ یومیہ ایک قرآن کریم مکمل پڑھ لیتے ہوں گے۔
تلاوتِ قرآن کے علاوہ ذکر و اذکار اور اورادِ مسنونہ کا بھی معمول تھا۔ میں حضر میں تو کبھی ساتھ نہیں رہا، البتہ سفر کی باتیں یقینی طور پر بیان کرسکتا ہوں، کیونکہ اس میں روایت اور خبر نہیں بلکہ مشاہدہ ہے۔ آپ عشاء کے بعد جلدی سونے کے عادی تھے اور فجر سے کافی پہلے اٹھ کر باوضو ہوکر تلاوت اور معمولات میں لگ جایا کرتے تھے۔ ٹرین میں آپ کو نیچے والی سیٹ پسند تھی تاکہ اترنے، چڑھنے اور وضو و فراغت میں کوئی تعب و دشواری نہ ہو۔
ایک صاحب ایک عامل کو آپ کے پاس لائے اور کہا: ’’حضرت! یہ بڑے عامل ہیں، آپ کو دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ حضرت مسکرائے اور فرمایا: ’’بالکل چیک کیجیے۔‘‘ عامل صاحب نے اپنا کام شروع کیا مگر اچانک مخاطب ہوئے اور کہنے لگے:
’’حضرت! میں کیا چیک کروں اور کیسے چیک کروں؟ ہمارے پاس جو مؤکل ہیں وہ آپ کے دروازے کے اندر داخل نہیں ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ نے اس قدر پڑھائی کر رکھی ہے کہ پورے گھر کا گویا حصار ہے، بندش ہے، شہر پناہ اور فصیل قائم ہے۔‘‘
ناظم صاحب مسکراتے رہے۔ نہ عامل کی تائید میں کوئی جملہ کہا اور نہ رد میں کوئی کلمہ اپنی زبان سے نکالا۔
ویسے بتاتا چلوں کہ آپ بھی عامل تھے اور رجب المرجب کے مہینے میں اس عمل کی زکوٰۃ بھی نکالتے تھے۔ عمل کی نوعیت کا مجھے بالکل علم نہیں ہے اور نہ ہی مجھے دلچسپی ہے۔
مفرور اور گم شدہ افراد کی بازیابی کے لیے آپ کوئی عمل بتایا کرتے تھے اور یہ عمل بڑا ہی مجرب اور مؤثر تھا۔ عمل میں کچھ آیات اور مسنون دعائیں پڑھنے کی ہدایت کرتے تھے۔
دردِ زہ میں مبتلا عورت کے لیے آپ کے پاس آپ کے بڑوں کا کوئی خاص وظیفہ بھی تھا۔ یہ تعویذ زچہ کی بائیں ران میں باندھا جاتا تھا اور آپ خوب تاکید کرتے تھے کہ ولادت ہوتے ہی سب سے پہلی فرصت میں یہ تعویذ کھول دینا، ورنہ زچہ کو نقصان ہوسکتا ہے۔
کئی مجرب دعائیں ایسی بتایا کرتے تھے کہ لوگ آکر خوشی خوشی کامیابی اور مقصد برآوری کی خوش خبری سناتے تھے۔
حافظ محمد یسین مرزاپور پول مسجد کے فراش تھے ان سے آپ اسی لئے بہت محبت کرتے تھے کہ تلاوت بہت کرتے تھے۔اپنا کام نمٹاتے ہی تلاوت میں مصروف ہوجاتے تھے۔
(جاری ہے)
27/صفر المظفر 1447

0 تبصرے