65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (9)


 یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
قسط 9


(ناصرالدین مظاہری)


یہ کوئی سن دو ہزار چار کے اواخر یا دو ہزار پانچ کی بات ہے۔ حضرت مولانا محمد سعیدی کو مسندِ اہتمام پر دوسرا سال تھا۔ ماہِ رمضان المبارک قریب تھے۔ ماہِ رمضان میں مدرسہ کے مطبخ میں خاص طور پر جو بریانی بنتی تھی وہ چاول خدا جانے کہاں سے بازیاب کروائے جاتے تھے۔ بلا مبالغہ دھنیا کے جسم و جثہ سے کم موٹے اور چھوٹے نہ ہوتے تھے۔ یہ بریانی قدیم معمول کا حصہ تھی اور یہاں "قدیم معمول" کہہ کر اچھی خاصی درخواست کو کینسل کر دیا جاتا تھا۔ کوشش تو حضرت مفتی مظفر حسین رحمہ اللہ کے زمانے میں بھی کی گئی کہ کسی طرح اتنے موٹے چاول کی بریانی ماہِ رمضان میں نہ بنائی جائے، کیونکہ یہی بریانی کچھ لوگ افطار میں، کچھ عشائیہ میں اور بہت سے لوگ گرم کرکے سحر میں کھاتے تھے۔


بتاتا چلوں کہ ماہِ رمضان میں افطار و سحر کا کھانا عصر کے وقت ہی دے دیا جاتا ہے۔ خیر، جب حضرت مولانا محمد سعیدی ناظم بنے تو آپ سے بڑی توقعات وابستہ تھیں اور آپ کے مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے یقین تھا کہ رمضان المبارک میں موٹے چاولوں کی بریانی کی جگہ باریک چاولوں کی بریانی بنائی جائے گی۔


اب مسئلہ یہ تھا کہ ناظم صاحب سے بات کون کرے؟ بات کرنے کے لئے ہمت بھی اور سلیقہ بھی دونوں مطلوب ہیں۔ بہرحال میں نے ہی ایک درخواست لکھی جس کا مضمون کچھ یوں تھا:


مکرم و محترم حضرت ناظم صاحب زید مجدکم

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ


حضورِ عالی! ماہِ رمضان کی آمد آمد ہے۔ ہر مؤمن ماہِ رمضان کی آمد پر خوش و خرم ہے، مگر ہم چند ملازمین و طلبہ جو رمضان المبارک میں مدرسہ کے مطبخ سے قیمتا کھانا لیتے ہیں اس کھانے کا سوچ کر ایک ہوک سی اٹھتی ہے۔ کیونکہ اگرچہ ماہِ رمضان میں اللہ تعالیٰ بندوں کے رزق میں فراوانی فرما دیتے ہیں، مگر مطبخ والے خدا جانے اتنے موٹے چاول کہاں سے تلاش کرا کے رکھتے ہیں کہ رمضان شروع ہوتے ہی بہت ہی موٹے چاولوں کی بریانی دی جاتی ہے، جس کو حلق سے اتارنا بھی مشکل ہوتا ہے۔


میری حضرت والا سے درخواست ہے کہ پورے ماہ آپ ہی قیمتا یہ کھانا اپنے نام جاری کرا لیں تاکہ ہم خدام کو بار بار مطبخ کی شکایت نہ کرنی پڑے اور ماہِ رمضان کی فضیلت اور احترام کو مدنظر رکھتے ہوئے بریانی بھی وہ بنائی جائے جو خود کے لئے پسند کی جاتی ہے۔


امید ہے کہ میری یہ گزارش صدا بصحرا ثابت نہ ہوگی۔

ناصرالدین مظاہری 


یہ درخواست میں نے اپنے دستخط کے ساتھ ناظم صاحب کی خدمت میں پیش کی۔ ناظم صاحب نے درخواست پڑھی، فوری طور پر ناظمِ مطبخ مولانا نذیر احمد مرحوم کو بلوایا۔ میری درخواست ان کے سامنے رکھ دی اور خشک لہجہ میں فرمایا:

"اس درخواست میں جو بات غلط ہو وہ بتائی جائے۔"


مولانا مرحوم نے درخواست پڑھ کر بہت دھیمے لہجہ میں کہا:

"کوئی بات غلط نہیں ہے، بس قدیم زمانے سے یہی معمول چلا آرہا ہے۔"


ناظم صاحب نے فرمایا:

"قدامت کوئی نص نہیں ہے۔ یہ لوگ قیمتا کھانا کھاتے ہیں، بھلا کیوں اتنے موٹے چاول کی بریانی کھائیں گے؟"


پھر ناظم صاحب نے درخواست پر تاریخی حکم لکھا:


"جناب مولانا نذیر احمد صاحب! ماہِ رمضان میں نہایت ہی عمدہ اور معیاری چاولوں کی بریانی بنائی جائے اور اسی کو معمول بنا لیا جائے۔"


پھر فرمایا:

"موٹے چاول فروخت کر دو، باریک چاول بازار سے منگوا لو۔"


ایک دن میں آپ کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ اس وقت طلبہ کا وظیفہ ڈیڑھ سو روپے ماہوار تھا۔ میں نے عرض کیا:

"حضرت! مجھ سے کسی نے کہا نہیں ہے، خود سے یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ عملہ کی تنخواہیں خوب بڑھا دی ہیں، طلبہ کا وظیفہ بھی بڑھا دیجیے۔"


فرمایا:

"کتنا کر دوں؟"


میں نے عرض کیا:

"دو سو تو ہونا ہی چاہیے۔"


فرمایا:

"ایک درخواست لکھو۔"


چنانچہ میں نے درخواست لکھی۔ ناظم صاحب نے اس پر لکھا:


"جناب مولانا محمد ارشاد صاحب! ماہِ رواں سے طلبہ کا ماہانہ وظیفہ تین سو روپے کر دیا جائے۔"


میں درخواست پڑھ کر دنگ رہ گیا کہ واہ! کیا سوچ اور طلبہ سے کیسی ہمدردی ہے۔ اور ابھی انتقال سے کچھ ماہ پہلے پورے پانچ سو روپے ماہانہ وظیفہ کر دیا۔ میرے علم کے مطابق مغربی یوپی کے مدارس میں شاید یہ امتیاز مظاہر علوم وقف ہی کو حاصل ہے۔ فی الوقت پانچ سو روپے عام طلبہ کو کسی بھی ادارہ میں وظیفہ نہیں دیا جاتا۔


(جاری ہے)


(سات ربیع الاول چودہ سو سینتالیس ہجری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے