اپنی اولاد کے سامنے خود کو برہنہ نہ رکھیں
✍️ مفتی ناصرالدین مظاہری
ہماری اولاد بے لباسی یا کم لباسی کی عادی بعد میں ہوتی ہے، ابتدا ہم ہی سے ہوتی ہے۔ گھر کے اندر ہماری ڈھیلی ڈھالی یا تنگ و چست پوشاک، بنیان کے بغیر رہنا یا محض لوور میں بیٹھنا، سب بچوں کے سامنے عملی سبق بن جاتا ہے۔ اگرچہ بعض صورتیں شرعاً جائز ہوں، مگر اخلاقی اور تربیتی اعتبار سے یہ نہایت خطرناک ہیں۔
یاد رکھیے! جوان اولاد اپنے جوان والد کی ہر حرکت پر نگاہ رکھتی ہے۔ اگر والد پردہ اور حیاء کا مظاہرہ کرے گا تو اولاد بھی حیادار ہوگی، اور اگر والد ڈھیلا پن دکھائے گا تو اولاد کے لیے بے احتیاطی آسان ہو جائے گی۔
حضرت عمر فاروقؓ کا حال یہ تھا کہ ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں:
"میرے والد نہایت تنہائی میں بھی برہنہ حالت میں کھڑے نہ ہوتے، ہمیشہ ستر کا پورا خیال رکھتے۔" (مصنف ابن ابی شیبہ)
یہاں تک کہ حضرت عمرؓ کی بیٹیاں کہتی تھیں:
"ہم نے اپنے والد کو کبھی برہنہ نہیں دیکھا۔" (حلیة الأولیاء)
یہ تھے وہ معیارِ حیاء جو گھر کے اندر بھی زندہ تھا۔
امام ابو حنیفہؒ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کے کمرے میں اچانک داخل نہ ہوتے بلکہ پہلے اجازت لیتے۔ یہ ان کی احتیاط اور حیاء تھی کہ گھر کے اندر بھی ادب اور پردے کے تقاضے پورے کرتے۔
(مناقب الامام الاعظم، امام موفق مکی)
ہمارے مشائخ میں سے بعض ایسے تھے کہ جب ان کی بیٹیاں بڑی ہو جاتیں تو کمرے میں تنہا داخل نہ ہونے دیتے، بلکہ دروازے پر ہی گفتگو کر لیتے۔ یہ کوئی سختی یا بدگمانی نہیں تھی بلکہ حیاء کا سب سے اونچا درجہ تھا۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ قریبی رشتہ داروں کے ساتھ بھی حد درجہ پردہ و حجاب رکھتے۔ ان کے نزدیک پردہ اور حیاء ایمان کا حصہ تھا اور گھر کے ماحول میں بھی اس کی پاسداری ضروری تھی۔
اسی طرح حضرت مفتی عبدالقیوم رائے پوریؒ کا واقعہ سنا ہے کہ ایک دن گھر میں ایک نوجوان بچی پر اچانک ان کی نظر پڑی، فوراً اہلیہ سے پوچھا:
"یہ کون ہے؟"
اہلیہ نے فرمایا: "یہ ہماری ہی بیٹی ہے۔"
مفتی صاحب نے کہا: "سبحان اللہ! یہ تو بڑی ہو گئی ہے!"
یہ کوئی غفلت نہیں بلکہ غیرتِ ایمانی اور حیاء کی شدت تھی کہ اپنی ہی بیٹی کو اس زاویے سے دیکھنے کا کبھی موقع نہ آیا۔
سڈول جسم اور فتنہ کا پہلو
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ بعض لوگوں کے جسم نہایت سڈول اور مضبوط ہوتے ہیں، بسا اوقات چھ پیک اور دلکش ڈیل ڈول صنفِ نازک کے لیے ہیجان اور فتنہ کا باعث بنتے ہیں۔ اس لیے ایسے افراد پر مزید ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے جسم کو دوسروں کے سامنے نمایاں نہ کریں۔
حضرت عمرؓ کے زمانے کا ایک واقعہ ہے: مدینہ میں ایک شخص بہت ہی خوش آواز تھا۔ جب وہ قرآن پڑھتا یا اشعار گاتا تو عورتیں کھڑکیوں اور دروازوں سے جھانکنے لگتی تھیں۔ حضرت عمرؓ کو اطلاع ملی تو آپ نے فوراً اس شخص کو مدینہ سے باہر کر دیا تاکہ فتنہ کا دروازہ بند ہو۔
(اشارہ: امام ابن جوزی، المنتظم)
جب آواز کے فتنے پر اتنی سختی کی گئی تو جسم کی نمائش کا فتنہ کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے؟
اسلام صرف ستر چھپانے کا حکم نہیں دیتا بلکہ فتنہ اور ہیجان کے ہر دروازے کو بند کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔
ہمارے اکابر کی یہ احتیاطیں آج کے ماحول میں مشکل معلوم ہوتی ہیں، لیکن یہی وہ عملی مثالیں ہیں جو ہمارے گھروں کو پاکیزہ بناتی ہیں اور ہماری اولاد کے اخلاق و کردار کو محفوظ رکھتی ہیں۔
یاد رکھیے! اولاد کی تربیت زبانی نصیحت سے زیادہ عملی نمونے سے ہوتی ہے۔ اگر والد حیاء کا پیکر ہوگا تو اولاد بھی باحیاء ہوگی، اور اگر والد خود کو کھلا رکھے گا تو اولاد بھی بے احتیاط ہو جائے گی۔
حیاء ایمان کا حصہ ہے، اور حیاء کے بغیر ایمان کا نور بجھنے لگتا ہے۔
لہٰذا اپنے گھروں کو حیاء کی روشنی سے منور کیجیے۔
(چودہ ربیع الاول چودہ سو سینتالیس ہجری)
0 تبصرے