65a854e0fbfe1600199c5c82

(ناصرالدین مظاہری)


سنو سنو!!


مہمان ایسا ہونا چاہیے


(ناصرالدین مظاہری)


بہت بار ایسا ہوتا ہے کہ میزبان مہمانوں کے لئے اپنے کمرے کی صفائی کرتا ہے، کمرے کی آرائش و زیبائش پر دھیان دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ مہمان کو شایانِ شان عزت و راحت بہم پہنچائی جائے۔ بہت سے لوگ تو پردے بھی بدل دیتے ہیں، بیڈ شیٹ بھی تبدیل کرتے ہیں، تکیے کے غلاف بھی نئے لگاتے ہیں۔ گویا میزبان خلوصِ دل کے ساتھ مہمان کی راحت رسانی کے لئے اپنا دل کھول کر رکھ دیتا ہے۔


لیکن مہمان کے جانے کے بعد اگر آپ کمرے کا جائزہ لیں اور آپ کو کمرے کی حالت ناقابلِ بیان نظر آئے تو آپ کے دل پر کیا گزرے گی؟


میں نے خود دیکھا ہے کہ بعض مہمان جاتے جاتے کمرے کی حالت ٹرین کے سلیپر ڈبے سے زیادہ خراب کر جاتے ہیں۔ چنانچہ سگریٹ بیڑی کے شوقین سگریٹ اور بیڑی کے ٹکڑے، مڑے تڑے گندے ٹشو پیپر، تکیے میں عجیب و غریب نشانات، جگ یا گلاس میں بچا ہوا پانی، عصمت دریدہ بیڈ شیٹ، عظمت رفتہ تولیہ اور ناگفتہ بیت الخلا، گم شدہ صابن اور گندے غسل خانے—کیا یہ مناظر آپ کے قلبِ نازک کو تکلیف دینے کے لئے کم ہیں؟


کیا آپ آئندہ ایسے "مہمانانِ کرام" کے لئے اپنے کمرے کو سجائیں گے؟ کیا دوبارہ آپ کی ہمت پڑے گی کہ ایسے "خواندہ" مہمان کو دعوت دی جائے؟


میں نے سعودی ایئرلائن جیسے معیاری طیاروں اور راجدھانی جیسی معیاری ٹرینوں میں بھی خوب دیکھا ہے کہ لوگ سفر پورا ہوتے ہوتے ایسی گت اور درگت بنا دیتے ہیں کہ لگتا ہی نہیں یہ لوگ سفرِ مبارک سے واپس آرہے ہیں یا یہ لوگ کچھ تعلیم یافتہ بھی ہیں۔


ہمارے حضرت مولانا محمد سعیدی صاحب رحمہ اللہ اسی لئے ٹرین کے کمبل استعمال نہیں کرتے تھے، کیونکہ کمبل روزانہ نہیں دھلے جاتے اور انہیں پیروجوان، مرد و زنان سبھی استعمال کرتے ہیں۔ یعنی کمبل کے ساتھ کچھ بھی "گھٹنا" گھٹ سکتی ہے۔


میرا تو جی چاہتا ہے کہ ہر مہمان خانے میں ایک رجسٹر اندراج کا رکھا جائے اور اس میں ایک کالم ہو: "روانگی کے بعد کمرے کی حالت"۔ پھر ایک خط بھیجا جائے جس میں یہ تمام باتیں لکھی جائیں اور درخواست کی جائے کہ:

"امید ہے اگلے سفر میں خیال رکھا جائے گا۔"


بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ تولیہ ہی غائب ہوگیا، کبھی کبھی تو چادر بھی گم ہوگئی۔ سنا ہے ٹرین والوں نے کمبل میں چپ کا نظام بنایا ہے تاکہ کمبلوں کو چوری سے بچایا جا سکے۔


مدینہ منورہ سے روانگی کا وقت ہو رہا تھا۔ میرے ہم حجرہ اپنا سامان پیک کرکے باقی ماندہ کچرا کمرے ہی میں پھینک رہے تھے۔ میں سمجھ گیا اور ارادہ کرلیا کہ میں سب سے بعد نکلوں گا۔ چنانچہ ایک ساتھی نے پوچھا بھی کہ بڑے سکون سے بیٹھے ہیں، خیر تو ہے؟


میں نے کہا: سب ٹھیک ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ جب کمرے سے نکل جائیں تو میں کمرہ صاف کر دوں تاکہ انتظامیہ ہمارے بارے میں کم از کم وہ خیال نہ باندھے جو دوسروں کے تعلق سے باندھے ہوئے ہے۔


یہ سنتے ہی وہ کہنے لگا: بڑی گہری بات کہی ہے، چلو بھئی سب لوگ کمرے سے نکل جاؤ، ہم پہلے کمرہ صاف کریں گے پھر روانہ ہوں گے۔


اصل میں ہماری سوچ یہ بن گئی ہے کہ صفائی کی ذمہ داری انتظامیہ کی ہے۔ تو پوچھنا یہ ہے کہ کیا گندگی کی ذمہ داری آپ کی ہے؟


(17 ربیع الاول 1447ھ)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے