65a854e0fbfe1600199c5c82

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور مہمان نوازی

 


سنو سنو!!

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور مہمان نوازی


(ناصرالدین مظاہری)


مہمان نوازی ایمان کی علامت ہے اور انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔ اس سنت کی شروعات حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوئی ہے ، بعض روایات میں حضرت ابراہیم کو "ابوالضیفان" یعنی مہمانوں کا باپ بھی کہا گیا ہے۔


اللہ تعالیٰ نے سورۂ ہود میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ضیافت کا ذکر فرمایا:

(وَلَقَدْ جَاۗءَتْ رُسُلُنَآ اِبْرٰهِيْمَ بِالْبُشْرٰى ۚ قَالُوْا سَلٰمًا ۭ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۗءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ) [ھود]


’’اور البتہ ہمارے بھیجے ہوئے ابراہیم کے پاس خوش خبری لے کر آئے، انہوں نے کہا سلام، ابراہیم نے کہا سلام ہے، پھر کچھ دیر نہ کی کہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔‘‘


بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے مکان کے چاروں طرف دروازے بنوا رکھے تھے تاکہ ہر سمت سے آنے والے مہمان بغیر رکاوٹ داخل ہو سکیں۔ (تنبیہ الغافلین)


حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عادت تھی کہ کبھی اکیلے کھانا نہ کھاتے، کھانے کے وقت اگر کوئی مہمان نہ ملتا تو تلاش میں نکل کھڑے ہوتے۔


جب فرشتے انسانی شکل میں آئے تو آپ نے انہیں مہمان سمجھ کر تعظیم کی، بچھڑا ذبح کر کے بھنا اور فوراً سامنے رکھ دیا۔ قرآن نے اسی منظر کو محفوظ کر لیا۔ (اس کی تفصیل اور تفسیر سورۂ ذاریات میں ملاحظہ فرمائیں)۔ 


بعض روایات میں ہے کہ فرشتوں کو کثرتِ طعام پیش کرنے پر بار بار وحی آئی کہ اصل مہمان نوازی کھانے کی کثرت نہیں، بلکہ حسنِ سلوک اور خدمت ہے۔ (فیوض الرحمٰن)


تفسیرِ قرطبی میں ہے کہ ایک بوڑھا، بھوکا آتش پرست مہمان آیا۔ جب کھانے پر بیٹھا تو بسم اللہ نہ کہی۔ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا: اللہ کا نام لو! اس نے انکار کیا اور کہا کہ میں آتش پرست ہوں۔ حضرت ابراہیمؑ نے غیرتِ ایمانی سے اسے دسترخوان سے اٹھا دیا۔

اسی وقت جبریل امین تشریف لائے اور کہا: اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اسے کفر کی حالت میں بھی سو سال تک رزق دیا اور تم نے ایک وقت کے کھانے پر اسے اٹھا دیا! یہ سنتے ہی آپ دوڑ پڑے اور اسے واپس بلا کر سارا واقعہ بتایا۔ وہ متاثر ہو کر فوراً ایمان لے آیا اور بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھایا۔


حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان واقعات اور سیرت و صفات سے تین بڑی باتیں معلوم ہوتی ہیں:


1. مہمان نوازی انبیاء کی سنت ہے۔

2. ضیافت میں اصل روح حسنِ اخلاق اور خدمت ہے، نہ کہ صرف کثرتِ کھانا۔

3. مہمان خواہ مومن ہو یا غیر مسلم، اس کی عزت و تکریم کرنی چاہیے، کیونکہ اس کا دل جیت کر ایمان کی طرف لایا جا سکتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیاتِ مبارکہ مہمان نوازی کی روشن مثال ہے۔ اسی نسبت سے آپ کو "امام الضیافت" کہا جاتا ہے۔


(اس مضمون میں قرآن کریم ، تفسیر قرطبی، تفسیر مظہری،تنبیہ الغافلین ، فیوض الرحمٰن اور مفتی محمد موسیٰ قاسمی کی حضرت آدم سے خاتم النبیین تک سے مدد لی گئی ہے)۔

(اٹھارہ ربیع الاول چودہ سو سینتالیس ہجری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے