سنو سنو!!
مہمانوں کی ضیافت
(ناصرالدین مظاہری)
سہارنپور کی جامع مسجد میں اپنے دورِ طالب علمی سے دیکھتا اور سنتا آ رہا ہوں کہ ہر روز مغرب کی نماز کے بعد ایک مستقل اعلان ہوتا ہے:
"مسافر حضرات اپنے کھانے کا ٹکٹ لے لیں"
مہمانوں کے کھانے کے نظام اور ترتیب کو دیکھنے کا موقع تو نہیں ملا، لیکن یہ عمل اور تعامل نہایت ہی قابلِ رشک، لائقِ تقلید اور باعثِ اجر و ثواب ہے۔ میں جامع مسجد سہارنپور کی انتظامیہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ایک طویل عرصہ سے یہ خوبصورت عمل جاری رکھا ہوا ہے۔ یہ باعثِ ثواب کام چاہے کسی ایک بندے کی طرف سے ہو یا چند اہلِ خیر کی طرف سے، یا خود جامع مسجد کی جانب سے؛ بہرحال دیگر ممتاز جگہوں کے لیے قابلِ تقلید ضرور ہے۔
مجھے ماجد دیوبندی کا مہمان بننے کا اتفاق تو نہیں ہوا، البتہ ضیافت اضیاف کے تعلق سے ان کا ایک شعر بہت مشہور ہے:
اللہ مرے رزق کی برکت نہ چلی جائے
دو روز سے گھر میں کوئی مہمان نہیں ہے
حضرت مولانا حبیب اللہ چمپارنی مہاجر مدنی ( شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی کے شاگرد اور خادمِ خاص تھے)۔ ان کی عادت بھی مہمان نوازی کی تھی۔ بلکہ مدینہ منورہ میں ان کی رہائش گاہ پر ایک وقت میں کئی کئی مہمان ہوا کرتے تھے۔ اور وہ اپنے اسی مزاج کی وجہ سے ماجد دیوبندی کا یہ کلام، محض اس شعر کی وجہ سے، خوب سنتے تھے۔
میں مدینہ منورہ میں ان سے ملاقات نہ کرسکا البتہ فون پر انھیں اپنی حاضری کی اطلاع دی تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ اپنا ہوٹل بتائیں میں ڈرائیور بھیج رہا ہوں اور قیام و طعام یہیں میرے گھر پر کرنا۔میں نے عرض کیا کہ حضرت میں ہر نماز مسجد نبوی میں پڑھنا چاہتا ہوں ۔ فرمایا کہ حرم شریف سے میرے گھر کی دوری تمہارے ہوٹل کی بہ نسبت قریب ہوگی ،یہ بھی فرمایا کہ تمہاری عادت مطالعۂ کتب کی ہے اور میرے یہاں کتابیں بہت ہیں ۔ بہرحال میں اس پیش کش کو قبول نہ کرسکا لیکن ان کی قدر و منزلت مزید بڑھ گئی۔
مدینہ منورہ کا ذکر ہو اور حضرت مولانا حکیم محمد عثمان قاسمی مدظلہ العالی کا تذکرہ نہ آئے یہ کیسے ممکن ہے۔ میں آپ کی ضیافت کے قصے اور تذکرے بہت سنتا رہا، لیکن ماضی قریب میں جب کئی بار ملاقات اور آپ کے دسترخوان پر آپ کی ضیافت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو سنی ہوئی تمام باتیں سچ اور حق ثابت ہوئیں۔ بلا مبالغہ ہر بار درجنوں مہمان آپ کے مہمان بنتے اور کھانے میں تنوع ایسا کہ سبحان اللہ۔ حکیم صاحب خود بھی دسترخوان پر موجود رہتے اور تمام مہمانوں کا پورا خیال رکھتے۔
مجھ سے فرمایا: " آپ کھانا غریب خانہ پر کھایا کریں، نماز کے وقت گاڑی سے مسجد نبوی آمد و رفت ہو جایا کرے گی۔" یہ اعلی ظرفی اور ضیافت بہرحال لائقِ تعریف ہے۔ ویسے بھی اہلِ مدینہ کی یہ عادت اور طبیعت کا حصہ ہے کہ وہ ضیافت میں دل کھول کر رکھتے ہیں۔
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں مہاجرینِ مکہ اجنبی، بے گھر اور بے سامان تھے۔ انصارِ مدینہ نے ان کا ایسا خیر مقدم کیا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت سعد بن ربیعؓ نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو اپنا نصف مال اور باغ پیش کردیا اور فرمایا:
" یہ میرا مال ہے، اسے آدھا تم لے لو، اور میری دو بیویاں ہیں، دیکھ لو جسے پسند ہو، میں اسے طلاق دے دیتا ہوں تاکہ تم نکاح کرسکو۔"
حضرت عبدالرحمنؓ نے جواب دیا:
"اللہ آپ کے مال اور اہل میں برکت دے، مجھے بازار کا راستہ دکھا دیجیے۔" (بخاری)
ایک انصاری صحابیؓ کے گھر میں مہمان آیا۔ گھر میں صرف بچوں کے کھانے کے برابر کھانا تھا۔ انہوں نے بیوی سے کہا: "بچوں کو سلا دو، چراغ بجھا دو اور ہم خود بھوکے رہ کر مہمان کو کھلا دیں گے۔" (بخاری)
ایک مرتبہ ایک محتاج شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کون ہے جو اس مہمان کو آج رات مہمان کرے؟" حضرت ابوطلحہؓ اٹھے اور مہمان کو گھر لے گئے۔ گھر میں صرف بچوں کا کھانا تھا۔ بیوی سے مشورہ کیا، اور دونوں میاں بیوی نے طے کیا کہ چراغ بجھا کر مہمان کو کھلائیں گے اور خود خالی پیٹ رہیں گے۔ صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے تمہاری اس مہمان نوازی پر آسمان والوں سے تعجب کا اظہار کیا ہے۔"
حضرت ابن عمرؓ کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ کبھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے۔ جب بھی کھانے کے لیے بیٹھتے، پہلے آواز لگاتے کہ کوئی مہمان ہے تو آ جائے۔ اگر دسترخوان پر مہمان نہ ہوتا تو انہیں کھانے میں لذت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
قرآن کریم میں اللہ پاک نے انصار کی تعریف میں فرمایا:
"ویؤثرون علیٰ أنفسہم ولو کان بہم خصاصة"
(وہ اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ خود محتاج ہوں۔)
(سورۂ حشر)
آج ہمیں بھی ان سنہرے واقعات سے سبق لینا چاہیے۔ مہمان نوازی صرف دعوت اور دکھاوے کا نام نہیں، بلکہ دل کی کشادگی، قربانی اور ایثار کا دوسرا نام ہے۔ اگر ہم صحابہ کرامؓ کی اس روش کو اپنالیں تو معاشرہ محبت، اخوت اور خیرخواہی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
(تئیس ربیع الاول چودہ سو سینتالیس ہجری)

0 تبصرے