سنو سنو!!
تکبیر سے پہلے قیام: ایک امر منکر
(ناصرالدین مظاہری)
نماز جماعت اسلام کا جلی نشان ہے۔ اس کے قیام کے لیے شریعت نے اذان اور اقامت کو مقرر فرمایا ہے۔ اذان نماز کے وقت کا اعلان اور اسلام کا شعار ہے، جبکہ اقامت جماعت کے آغاز کا اعلان ہے۔ ان دونوں میں ترتیب، ادب اور ذمہ داری کا لحاظ ضروری ہے، ورنہ جماعت کا حسن اور سکینت متاثر ہوتی ہے۔
کبھی کبھی بعض لوگ جماعت شروع ہونے سے ایک آدھ منٹ پہلے صف میں پہنچ کر کھڑے ہوجاتے ہیں یہ سوچ کر کہ اب تو اقامت شروع ہونے والی ہے اب کیا بیثھوں۔ حالانکہ آداب اقامت اور احترام جماعت کا تقاضا یہ ہے کہ اس شخص کو( اگر معقول عذر نہ ہو تو ) بیٹھ جانا چاہیے ورنہ کسی ایسی جگہ کھڑے ہو جائیں جہاں سے اقامت کا تقدس پامال نہ ہو۔ اذان دینا مؤذن کا حق ہے اور اقامت کہنا امام کا اختیار ہے۔
حضرت علیؓ نے فرمایا:
"المؤذن أملك بالأذان، والإمام أملك بالإقامة"
(مصنف عبدالرزاق)
اذان پر سب سے زیادہ حق مؤذن کا ہے، اور اقامت پر سب سے زیادہ حق امام کا ہے۔
صحیحین میں ہے:
"إن المؤذن كان يأتي النبي صلى الله عليه وسلم فيؤذنه بالصلاة" (بخاری، مسلم)
مؤذن نبی کریم ﷺ کے پاس آکر نماز کی اطلاع دیا کرتا تھا۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إذا ثوب بالصلاة فلا تأتوها وأنتم تسعون، وأتوها وأنتم تمشون وعليكم السكينة..."
(مسلم)
جب اقامت کہی جائے تو نماز کی طرف دوڑتے ہوئے نہ آؤ بلکہ سکون اور وقار کے ساتھ آؤ۔
یہ نصوص اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ نماز کا آغاز سکینت، ترتیب اور امام کی متابعت کے ساتھ ہونا چاہیے۔
امام ابن قدامہؒ (المغنی):
"ولا يقيم حتى يأذن له الإمام"
مؤذن اقامت نہ کہے جب تک امام اجازت نہ دے۔
امام نوویؒ (المجموع):
"وقت الإقامة منوط بالإمام فلا يقيم المؤذن إلا بإشارته"
اقامت کا اختیار امام کے ہاتھ میں ہے، مؤذن امام کے اشارہ کے بغیر اقامت نہ کہے۔
معاصر توضیح:
"الإمام أملك بالإقامة" کا مطلب یہ ہے کہ امام جماعت کی حالت اور مصلحت دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے کہ اقامت کب کہی جائے۔ مثلاً:
امام کو وضو مکمل کرنا ہے۔
امام سنت پوری کر رہا ہے۔
امام دیکھتا ہے کہ لوگ ابھی آرہے ہیں، تو کچھ لمحہ انتظار کرلیتا ہے۔
گویا مؤذن اطلاع دینے والا ہے اور امام فیصلہ کرنے والا۔
آج کل ایک رواجی منکر عام ہے کہ:
لوگ امام کے مصلے پر پہنچنے سے پہلے ہی صف میں کھڑے ہوجاتے ہیں۔
بعض تو تکبیرِ تحریمہ سے بھی پہلے ہاتھ باندھ کر تیار کھڑے رہتے ہیں۔
1. اقامت امام کے اذن سے ہے تو قیام بھی اقامت کے بعد ہونا چاہیے۔
2. صف میں کھڑا ہونا نماز کی ابتدا کا اعلان ہے، جبکہ نماز امام کی تکبیر سے شروع ہوتی ہے۔
3. قبل از وقت قیام بد نظمی اور سکینت کے منافی ہے۔
ابن شہاب زہری نے فرمایا کہ صحابہ کرام ؓ موٴذن کے اللہ اکبر کہتے ہی نماز کے لیے کھڑے ہوجایا کرتے تھے، یہاں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلے پر پہنچنے سے پہلے ساری صفیں درست ہوجایا کرتی تھیں (فتح الباری ۲: ۱۵۸)
بڑے شہروں کی مساجد میں اکثر دیکھا جاتا ہے کہ مؤذن اقامت کہے نہ کہے، لوگ جلدبازی میں پہلے ہی کھڑے ہوجاتے ہیں۔
دیہات میں یہ عادت اور زیادہ عام ہے کہ جیسے ہی امام مسجد میں داخل ہوا، لوگ صفوں میں کھڑے ہوگئے۔
بعض جگہ تو یہ بھی ہوتا ہے کہ امام وضو خانے سے آرہا ہوتا ہے اور مقتدی پہلے سے صف میں تیار کھڑے ہوتے ہیں۔
یہ سب عمل سنت کے خلاف اور منکر ہیں۔
مؤذن اذان اپنے وقت پر دے اور اقامت امام کے اذن سے کہے۔
مقتدی اقامت کے بعد سکون اور وقار کے ساتھ اپنی صفوں میں کھڑے ہوں۔
امام تکبیرِ تحریمہ کہے تو سب مقتدی اسی کے ساتھ نماز شروع کریں۔
اذان مؤذن کا حق ہے، اقامت امام کے اختیار سے ہے، اور قیام اقامت کے بعد ہونا چاہیے۔
امام سے پہلے یا تکبیر سے پہلے صف میں کھڑا ہونا سنت کے خلاف اور منکر عمل ہے۔
نماز میں سکینت، وقار اور ترتیب مطلوب ہے، جلدبازی اور بد نظمی نہیں۔
یاد رکھیں! عبادت میں ادب ہی اصل روح ہے، اور جماعت کا حسن اتباعِ سنت ہی میں ہے۔
0 تبصرے