سنو سنو!!
مہمان صحابہ، میزبان صحابہ
(ناصرالدین مظاہری)
اسلام کی تاریخ میں مہمان نوازی کے جو واقعات موجود ہیں، ان میں سب سے نمایاں وہ ہیں جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ کرامؓ سے منسوب ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی جان، مال اور وقت سب کچھ اللہ کی رضا کے لیے وقف کردیا تھا۔ ان کے درمیان جب مہمان اور میزبان کا رشتہ قائم ہوتا تو صرف کھانے پینے کی حد تک نہیں رہتا بلکہ ایمان، اخوت اور ایثار کے انمول مناظر سامنے آتے۔
ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں مہاجرین مکہ اجنبی، بے گھر اور بے سازو سامان تھے۔ انصار مدینہ نے ان کا ایسا خیرمقدم اور ویلکم کیا کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ حضرت سعد بن ربیعؓ نے حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کو اپنا نصف مال اور باغ پیش کردیا اور فرمایا:
"یہ میرا مال ہے، اس میں سے آدھا تم لے لو، اور میری دو بیویاں ہیں، دیکھ لو جو پسند ہو، میں اسے طلاق دے دیتا ہوں تاکہ تم اس سے نکاح کرسکو۔"
حضرت عبدالرحمنؓ نے جواب دیا: "اللہ آپ کے مال اور اہل میں برکت دے، مجھے بازار کا راستہ دکھا دیجیے۔"
یہ منظر صرف مہمان نوازی نہیں بلکہ اسلامی اخوت اور ایثار کا وہ معیار ہے جس نے دنیا کو حیران و ششدر کردیا۔
ایک انصاری صحابیؓ کے گھر میں مہمان آیا۔ گھر میں صرف بچوں کے کھانے کے برابر کھانا تھا۔ انہوں نے بیوی سے کہا: بچوں کو سلا دو، چراغ بجھا دو اور ہم خود بھوکے رہ کر مہمان کو کھلا دیں گے۔ صبح جب وہ بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اللہ تعالیٰ تم دونوں کے اس عمل پر ہنس پڑا۔"
یہ ہے صحابہ کی مہمان نوازی کا درجہ، کہ اپنی بھوک پر مہمان کی راحت کو ترجیح دی۔
ایک مرتبہ ایک محتاج شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ نے پوچھا: "کون ہے جو آج رات اس مہمان کی مہمان نوازی کرے؟"
حضرت ابوطلحہؓ اٹھے اور مہمان کو گھر لے گئے۔ گھر میں صرف بچوں کا کھانا تھا۔ بیوی سے مشورہ کیا، اور دونوں میاں بیوی نے طے کیا کہ چراغ بجھا کر مہمان کو کھلائیں گے اور خود خالی پیٹ رہیں گے۔ صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا:
"اللہ تعالیٰ نے تمہاری اس مہمان نوازی پر آسمان والوں سے تعجب کا اظہار کیا ہے۔"
حضرت ابن عمرؓ کے بارے میں مشہور ہے کہ کبھی اکیلے کھانا نہیں کھاتے تھے۔ جب بھی کھانے کے لیے بیٹھتے، پہلے آواز لگاتے کہ کوئی مہمان ہے تو آ جائے۔ ان کا معمول یہ تھا کہ دسترخوان پر مہمان نہ ہو تو انہیں کھانے میں لذت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
غزوۂ تبوک کے موقع پر جب صحابہ سخت فاقہ کشی میں تھے، ایک مہمان آیا۔ میزبان صحابہ کے پاس کچھ نہ تھا۔ انہوں نے اپنی اونٹنی ذبح کردی اور گوشت پکایا تاکہ مہمان اور دیگر صحابہ میں سے کوئی بھوکا نہ رہے۔ اس منظر کو دیکھ کر دوسرے صحابہ بھی شوق سے مہمانوں کی خدمت میں لگ گئے۔
مہمان نوازی صحابہ کرامؓ کے نزدیک محض اخلاقی فریضہ نہیں تھا بلکہ ایمان کا حصہ تھا۔ وہ بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلاتے، اپنے حصے کا نوالہ قربان کرتے، اور اس ایثار کو سعادت سمجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے انصار کی تعریف میں فرمایا:
"ویؤثرون علیٰ أنفسہم ولو کان بہم خصاصة"
(وہ اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں، اگرچہ خود محتاج ہوں۔)
آج ہمیں بھی ان مثالوں سے سبق لینا چاہیے۔ مہمان نوازی صرف دعوت اور دکھاوے کا نام نہیں، بلکہ دل کی کشادگی، قربانی اور ایثار کا دوسرا نام ہے۔ اگر ہم صحابہ کرامؓ کی اس روشن روش کو اپنالیں تو معاشرہ محبت، اخوت اور خیرخواہی کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
(اس مضمون کی تیاری میں بخاری شریف، مسلم شریف ، سیرت ابن ہشام، تاریخ الطبری
اور سیر اعلام النبلاء نیز حکایات صحابہ از حضرت شیخ الحدیث کاندھلوی سے مدد لی گئی ہے )
0 تبصرے