سفر کے تجربات و مشاہدات
(ناصرالدین مظاہری)
اب تک سفر کا اچھا خاصا تجربہ ہوچکا ہے سوچا کہ کچھ تجربات عرض کر دوں ممکن ہے کسی کے کام آجائیں۔
● بس کے بونٹ پر کبھی مت بیٹھیں، ورنہ "تشریف" کے جلنے کا امکان ہے اور بریک لگنے پر پیچھے لڑھکنے کے لیے بھی تیار رہیں۔
● آپ سے آگے ونڈو سیٹ پر اگر بچہ یا عورت بیٹھی ہو تو اس کی قے سے بچنے کے لیے چوکنا رہیں۔
● بس ڈرائیور عموماً ٹکٹ کی پشت پر باقی رقم لکھ دیتے ہیں، جو سفر کے اختتام سے پہلے عندالطلب مل جاتی ہے۔ اس لیے یہ ٹکٹ آپ کے لیے "چیک" کے درجے میں ہے، اور ٹکٹ ایسی جگہ رکھیں کہ رقم لینی یاد رہے۔ کچھ نیک ڈرائیور منزل سے پہلے اعلان کر دیتے ہیں کہ باقیماندہ پیسے لے لیں اور کچھ ڈرائیور چاہتے رہتے کہ سواری اپنی رقم بھول جائے۔
● سفر کے لیے کچھ کھلے روپے یا چھوٹے نوٹ ضرور رکھیں، کیونکہ بسا اوقات بڑی تکلیف ہوتی ہے۔
● سفر مکمل ہونے تک ٹرین یا بس کا ٹکٹ محفوظ رکھیں۔ سرکاری بس کے چیکرز کہیں بھی راستے میں بس روک کر ہر فرد سے ٹکٹ چیک کر سکتے ہیں۔ آپ نے بے شک ٹکٹ لیا تھا لیکن ضائع کر دیا ہے تو مجرم گردانے جا سکتے ہیں اور جرمانہ ہوسکتا ہے۔ ورنہ رسوائی اور فضیحت تو ہوگی ہی۔
● ٹرین کا ٹکٹ لیتے وقت اپنے نوٹ پر دھیان دیں اور دائیں بائیں موجود گرہ کٹ یعنی چوروں سے بھی ہوشیار رہیں، کیونکہ یہی وقت ہوتا ہے جب آپ کا مکمل دھیان ٹکٹ ماسٹر کی طرف ہوتا ہے اور چور آپ کی جیب یا موبائل صاف کر سکتے ہیں۔
● ٹکٹ ماسٹر سے غلطی بھی ہوجاتی ہے لہذا ٹکٹ ملنے کے بعد مندرجات چیک کرلیں، میں ایک دفعہ سہارنپور سے سیتاپور کا ٹکٹ لیا ، کرایہ بہت زیادہ مانگا گیا تو میں حیرت زدہ رہ گیا ، ٹکٹ دیکھا تو منزل "سون پور" لکھی تھی،میں نے کہا کہ فارم چیک کیجیے اور فارم کے مطابق دوسرا ٹکٹ دیجیے مجھے سیتاپور جانا ہے سون پور کا تو مجھے پتہ بھی نہیں کہاں ہے؟
● ٹکٹ ماسٹر شیخ عبدالقادر جیلانی نہیں ہے، وہ آپ سے اصلی نوٹ لے کر اچانک نقلی نوٹ تھما سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ یہ نوٹ تو نقلی ہے۔ اگر آپ تھوڑا سا دھیان دیں تو مسئلہ آسان ہو سکتا ہے۔ یعنی آپ اپنے نوٹ کے آخری چار نمبر یاد رکھیں تاکہ نقصان نہ اٹھائیں۔
● اپنی منزل سے پہلے اپنا سامان چیک کریں اور ایک جگہ رکھیں۔ سامان کے کتنے عدد ہیں یہ ضرور یاد رکھیں۔ اگر کئی لوگ ساتھ ہیں تو سب کو تاکید کریں کہ ہر شخص اپنا سامان خود ہی اٹھائے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی اپنی شیخوخت میں رہتا ہے اور اس کا سامان گاڑی میں ہی رہ جاتا ہے۔
● بس یا ٹرین میں سامان ایسی جگہ رکھیں کہ آپ کسی بھی وقت اپنے سامان تک پہنچ سکیں۔ اگر پانی کی ہی ضرورت پڑ گئی اور سامان کہیں اور رکھا ہوا ہے تو ناقابل بیان پریشانی ہوتی ہے۔
● بچے ساتھ ہوں تو ترتیب یہ ہو: پہلے بچوں کو سوار کریں، پھر سامان رکھیں، پھر اہلیہ محترمہ کو اندر بھیجیں اور بالکل آخر میں آپ سوار ہوں۔ یہ ترتیب اس لئے بتائی ہے تاکہ اہلیہ سامان کی حفاظت کرتی رہے ورنہ سامان غائب ہوسکتا ہے۔
کبھی کبھی جلد بازی میں بچہ ہی باہر رہ جاتا ہے اور والدین چلے جاتے ہیں۔ یہ جلد بازی بہت نقصان دیتی ہے۔
● سفر میں جتنا سامان کم رکھیں گے آرام میں رہیں گے۔ سامان کی زیادتی پریشانی کا باعث ہے۔
● ٹرین میں دودھ پیتے بچوں کو اوپر کی سیٹ پر نہ سلائیں ورنہ بستر ایسا بچھائیں جو پیشاب کو جذب کرسکے۔ بچوں کے گرنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے اور اگر پیشاب کر دیا تو نیچے والے سارے لوگ ناپاک ہو جائیں گے۔
● ذاتی تجربہ:
میں مدرسہ کے کام سے جنرل ٹرین کے جنرل ڈبے میں سہارنپور سے دہلی جا رہا تھا۔ سہارنپور والوں کے لیے دہلی دور نہیں ہے۔ میں نے سوچا کہ دن کے دن واپسی کرنی ہے اس لیے اضافی سوٹ بھی نہیں لیا۔ مجھے پتہ نہیں تھا کہ اوپر والی سیٹ پر کوئی بچہ سویا ہوا ہے۔ بچے نے پیشاب کیا اور میں تربتر ہو گیا۔
سوچیں ہنگامی سفر، دہلی جیسا بھیڑ بھاڑ والا شہر، پورا سفر اسی حالت میں ہوا، نمازیں بھی قضا ہو گئیں اور طبیعت بھی مکدر رہی۔ تب سے عادت ہوگئی ہے کہ ٹرین کے سفر میں ایک اضافی سوٹ ضرور ساتھ رکھتا ہوں۔
(چار ربیع الثانی چودہ سو سینتالیس ہجری)
0 تبصرے