سنو سنو!!
آچھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(ناصرالدین مظاہری)
شخصیت کے نقص صرف بڑے گناہوں سے ظاہر نہیں ہوتے، بعض دفعہ وہ ایک لمبی جمائی، کھڑکنے والی انگڑائی اور بھونچال لانے والی چھینک سے بھی ظاہر ہو جاتے ہیں۔
بعض چھینکنے والے ایسے چھینکتے ہیں کہ کھڑک سنگھ کی کھڑکیاں کھڑکنے لگتی ہیں۔
کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں۔
کھڑکیوں کے کھڑکنے سے کھڑکتا ہے کھڑک سنکھ
آئیے، ان "چھوٹی مگر بڑی" خرابیوں کا تذکرہ کرتے ہیں:
جمائی کا قہر
جمائی ایک فطری عمل ہے، لیکن یہ فطرت کی ایسی مہربانی ہے جو دوسرے کے لیے عذاب بن جاتی ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ کو چھینک پسند ہے اور جمائی ناپسند ہے، کیونکہ یہ شیطان کی طرف سے ہے۔
اب ہمارے کچھ معزز دوست جب جمائی لیتے ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے توپ کا دہانہ کھل گیا ہو۔ ساتھ میں "ہااااااا" کی گرجدار آواز، اور سامنے والا بندہ سوچنے لگتا ہے کہ یا اللہ! یہ جمائی ہے یا شیر کی دہاڑ؟
مزید مزہ (یا غم) تب آتا ہے جب بندہ دورانِ گفتگو ہی جمائی لے اور ساتھ ساتھ الفاظ بھی آدھے ادھورے اس کے جوف دہن سے نکلیں: "ہاںںںں... وہووو... میرااا... مطلب..."—گویا گفتگو نہیں، کارٹون نیٹ ورک چل رہا ہو۔
ادب یہ ہے کہ جمائی آئے تو منہ پر ہاتھ رکھ لیں ، تاکہ شیطان ہنس نہ سکے اور انساں رو نہ سکے۔
انگڑائی کا اکڑپن
اب آتے ہیں انگڑائی کی طرف۔ یہ بھی ایک فطری عمل ہے، لیکن کچھ حضرات محفل میں انگڑائی لیتے ہوئے ایسا محسوس کراتے ہیں جیسے پورا کرکٹ میچ کھیل کر ابھی ابھی واپس آئے ہوں۔ ہاتھ اوپر، ٹانگیں پھیلی ہوئی، کمر ٹیڑھی اور منہ سے ایسی آواز جیسے کوئی بھینس پانی میں ڈوب رہی ہو۔
یہ انگڑائی ہے یا ریہرسل"؟
ادب کا تقاضا یہ ہے کہ اگر واقعی جسم ٹوٹ رہا ہے تو ذرا دبے دبے، کونے کھدرے میں یا کم از کم "صامت فلم" کے انداز میں انگڑائی لو۔
چھینک کا زلزلہ
چھینک بلاشبہ اللہ کی نعمت ہے، صحت کی علامت ہے۔ لیکن بعض لوگ اسے "دیسی مائیک" سمجھ کر یوں چھینکتے ہیں جیسے کسی مندر کے لاؤڈ اسپیکر پر کوئی پجاری تنتر منتر پڑھ کر پھونک مارے:
"ہاااااااااااااااااااااااااااااچھووووووووووووو!"
پھر ساتھ میں تیز جھٹکے سے سامنے والے کے منہ پر جراثیموں کی بارش—گویا اسپرے سروس مفت فراہم کی جا رہی ہو۔
ادب یہ ہے کہ رومال، کپڑا یا کم از کم ہاتھ سے منہ ڈھانپ لیں اور یاد رکھیں، چھینک کے بعد "الحمدللہ" اور جواب میں "یرحمک اللہ" سنت ہے۔ لیکن اگر کوئی تین بار سے زیادہ چھینکے تو سمجھ لیجیے کہ یہ بندہ دعا کا مشتاق نہیں، ڈاکٹر کا محتاج ہے۔
خلاصۂ تحریر:
جمائی کو قابو میں رکھیں، ورنہ مجلس آپ کو نہیں، آپ مجلس کو بور کر دیں گے۔
انگڑائی کو "اکڑائی" نہ بنائیں، کہ لوگ سمجھیں کہ ابھی ابھی دنگل سے آئے ہیں۔
چھینک کو شورشرابے کا ذریعہ نہیں بلکہ شکرگزاری اور دعا کا ذریعہ بنائیں۔
اور ہاں! نزلے والے حضرات "سٹر سٹر" کرنے سے پرہیز کریں۔
یہ چھوٹی چھوٹی احتیاطیں شخصیت کے بڑے بڑے نقص دور کر دیتی ہیں۔ ادب صرف کتابوں میں نہیں، بلکہ آپ کی روزمرہ کی چھوٹی حرکات و سکنات سے چھلکتا ہے۔ تو اگلی بار جمائی، انگڑائی یا چھینک آئے تو ذرا خیال رکھیے گا، ورنہ لوگ آپ کے سایہ سے بھی کترانے لگیں گے۔
(تین ربیع الثانی چودہ سو سینتالیس ہجری)
0 تبصرے