65a854e0fbfe1600199c5c82

تعلیم عام کرنے والوں کا جرم

 

سنو سنو!!
تعلیم عام کرنے والوں کا جرم


(ناصرالدین مظاہری)


قد آور مسلم سیاسی رہنما محمد اعظم خان ناکردہ گناہوں کی کافی طویل سزا جھیل کر جیل سے باہر آچکے ہیں۔ لکھنؤ سے رام پور جانے والے ان کے قافلہ میں کئی درجن گاڑیوں سے ان کی شخصیت کی چمک دمک اور رعب داب کا اندازہ ہوتا ہے۔


اتنے بے داغ لیڈر پر کبھی بھینس، کبھی مرغی چوری کا الزام لگایا گیا اور پابند سلاسل کردیا گیا۔ میں نے قریب کے چند سالوں میں غور کیا ہے تو اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ محمد اعظم خان، ڈاکٹر محمد ایوب انصاری، حاجی محمد اقبال بندوقچی، ڈاکٹر عبد القدیر، نوجوان ماہر تعلیم محمد ولی رحمانی، حتی کہ خان سر بھی موجودہ عہد کے بڑے "تعلیمی مجرم" ہیں۔


جن لوگوں کے نام لکھے گئے ہیں ان میں سر فہرست محمد اعظم خان صاحب ہیں، جو سیاست کے باعث نہیں بلکہ محمد علی جوہر یونیورسٹی کے قیام و استحکام کی وجہ سے حاسدین کی نظر میں خار مغیلاں بن کر چبھے اور کھٹکے۔ یہ چبھن تب تک برقرار رہی جب تک یونیورسٹی کے بعض حصوں کی تخریب اور مسماری نیز خود خان صاحب کو جیل نہیں بھیجوادیا گیا۔


ڈاکٹر محمد ایوب انصاری پر قاتلانہ حملہ اور حملہ آواروں کی تحقیق نہ کراکر یہ ثابت کیا گیا کہ کوئی بلکہ کون معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں۔ ڈاکٹر صاحب کی مقبولیت اور ان کی بڑھتی شہرت و پذیرائی کو بڑی سازش کے ساتھ دفن کردیا گیا۔


حاجی محمد اقبال وہ شخصیت ہیں جنھوں نے مسجدوں، مدرسوں اور مندروں کے لئے ریت، بجری، پتھر اور نقد رقم سے کبھی انکار نہیں کیا۔ ان کے عہد میں شاید ہی کوئی دھارمک عمارت ان کی دریا دلی سے محروم رہی ہو۔ لیکن ان کا یہ جرم ہی تو ہے کہ انھوں نے عظیم الشان گلوکل یونیورسٹی قائم کردی، وہ بھی اپنے دم خم پہ۔


جوہر یونیورسٹی کا تو خیر بڑے پیمانے پر چندہ بھی ہوا لیکن گلوکل یونیورسٹی تو خود اقبال صاحب کا ذاتی کارنامہ ہے۔ بھلا اسلام دشمنوں کو یہ کیسے گوارہ ہوسکتا تھا کہ گلوکل یونیورسٹی کا بانی عزت اور سرخ روئی کی زندگی بسر کرے؟ شاباشی یوں ملی کہ ان کی جائیدادوں کو مسمار کیا گیا، ان کی اولاد تک کو جیل میں ڈال دیا گیا اور خود اقبال صاحب فرار کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوئے۔


ڈاکٹر عبد القدیر صاحب بیدر کو اللہ سلامت رکھے، وہ ضرور کچھ نیکیوں کی وجہ سے حاسدین کے حسد سے محفوظ ہیں، مگر تابکے؟


محمد ولی رحمانی موجودہ دور میں بڑا تابناک اور نیک نام ہے۔ یہ نوجوان بڑی تیزی کے ساتھ ماشاء اللہ تعلیمی ادارہ قائم کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ اللہ اس کی حفاظت فرمائے۔


خان سر ایک ماہر تعلیم ہے۔ مجھے اس کے دھرم کا پتہ نہیں ہے، نہ ہی پتہ کرنے کا شوق ہے۔ مگر خان سر کے بقول اس کو کتنی بار سنگین قسم کی دھمکیاں اور کروڑوں روپے کی آفر کی جاچکی ہے تاکہ وہ نہایت سستی بلکہ مفت تعلیم دینے کا یہ سلسلہ موقوف کردے، تاکہ تعلیم مافیاؤں کو من مانی کرنے کا موقع ملتا رہے۔


میں ایک بات بہت ہی ذمہ داری کے ساتھ لکھتا رہا ہوں کہ حکمران وقت کے دوچہرے ہیں۔ اصل حکومت وہ کرتے ہیں جو بالکل نظر نہیں آتے اور ان پس پردہ "حکمرانوں" کی ہدایات پر ہی ظاہری حکومتیں چلتی ہیں۔ پس پردہ بیٹھے لوگ تعلیم کے عموم کے ہی قائل نہیں ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تعلیم اتنی محدود کردی جائے کہ بس صرف بڑے خاندانوں، خانوادوں اور اونچی ذات تک رہ جائے۔


یہ جو سرکاری اداروں میں تعلیم کے معیار کا ستیاناس ہورہا ہے، یہ خواہ مخواہ نہیں ہے۔ حکمراں یہی چاہتے ہیں کہ غریب کے بچے وظائف کے چکر میں پڑے رہیں اور امیروں کے بچے لندن، آکسفورڈ اور ہارورڈ یونیورسٹی سے ڈگریاں لے کر حکومت کے لئے تیاری کریں۔


---

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے