65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی (۲)

 یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی (۲)


(ناصرالدین مظاہری)


کھروڈ/بھروچ/گجرات میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ کے بارے میں بڑا سیمینار تھا۔ اس میں حضرت مولانا محمد سعیدی بھی شریک تھے۔ اس نشست کی صدارت حضرت مولانا سید محمد سلمان صاحب سہارنپوری رحمہ اللہ نے کی تھی۔ صدارتی خطاب میں مولانا محمد سلمان مظاہری رحمہ اللہ نے جو تاریخی خطاب فرمایا، میرے علم کے مطابق اس کے بعد اتنا زوردار بیان شاید نہیں ہوا۔


اس بیان میں حضرت مولانا سید محمد سلمان صاحب نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ مظاہر اور اکابرِ مظاہر کی وہ وہ باتیں بیان ہوئیں کہ شاید اس مجمع کی اکثریت ان باتوں سے اب تک واقف نہیں تھی۔ حضرت مولانا محمد سعیدی اپنے استاذ محترم کا یہ بیان سنتے رہے اور اش اش کرتے رہے۔


یہاں تک کہ پروگرام ختم ہوا۔ بڑا تفصیلی خطاب تھا۔ اس کے بعد ایئرپورٹ کے راستے میں بھی خطاب کا ذکر کرتے رہے، پھر سہارنپور میں کئی بار تذکرہ کیا اور مجھ سے کہا کہ اگر وہ تقریر مل جائے تو "آئینہ مظاہرعلوم" میں شائع کردو۔


میں نے حیرت سے یہ حکم سنا تو برجستہ فرمایا کہ:

"کیا ہوا، میں صحیح کہہ رہا ہوں، اکابر مظاہر کے بارے میں اتنے بڑے پروگرام میں اتنی تفصیل سے خطاب میں نے پہلی بار سنا ہے۔ ہر بات آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے۔ کوئی کہے گا تو کیا کہے گا؟ وہ میرے استاذ ہیں، اور انھوں نے اپنے استاذ یعنی میرے تایا حضرت فقیہ الاسلام مفتی مظفر حسین رحمہ اللہ کے بارے میں کبھی ایک حرف اپنی زبان سے مخالفت کا نہیں نکالا۔"


بہرحال میں نے کئی لوگوں بشمول مولانا محمد جابر بن عمر پالنپوری سے یہ تقریر مانگی، مگر نہیں مل سکی۔


ایک خادم نے مجھ سے بیان کیا کہ حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ، حضرت مولانا سید محمد سلمان صاحب کی تقریریں یوٹیوب پر تلاش کرکے سنا کرتے تھے۔


کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن کے زمانہ میں حضرت مولانا سید محمد سلمان مظاہری کے بارے میں جب معلوم ہوا کہ طبی تحقیق میں آپ پر کرونا وائرس کا اثر پایا گیا ہے اور آپ کو کورنٹائن کردیا گیا ہے، تو یہ سن کر حضرت مولانا محمد سعیدی نے بہت زیادہ اظہار افسوس کیا اور یہاں تک فرمایا:


"پتہ نہیں، کیسے کیسے انجیکشن لگا کر مولانا کے ساتھ کیا کریں گے، اللہ خیر فرمائے۔"


اس کے بعد تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ مولانا کے انتقال کی خبر سننے کو ملی۔

إنا لله وإنا إليه راجعون


قارئین کو یہ سن کر، جان کر بہت تعجب ہوگا کہ لاک ڈاؤن سے پہلے مظاہرعلوم وقف سہارنپور کی ایک خوبصورت البم شائع کی گئی۔


تو اس میں بالکل شروع میں راقم الحروف نے ایک عنوان لگایا:

"سعادت سے سعیدی تک"


اس عنوان کے تحت تمام نظماء کے بارے میں کسی ایک اہم شخصیت کا قول نقل کیا گیا۔ حضرت مولانا محمد سعیدی کا جب نمبر آیا تو آپ کے بارے میں آپ ہی کے استاذ حضرت مولانا سید محمد سلمان صاحب کی اجازت حدیث میں سے چند جملے لئے، ان کا ترجمہ کیا اور لکھا:


"مجھے یقین ہے کہ موصوف نیک نوجوان، درس و تدریس کے لئے موزوں و مناسب، متدین و امانت دار اور فطری طور پر متواضع ہیں۔"


یہ اقتباس جب ناظم صاحب کو دکھایا تو اظہار مسرت کرتے ہوئے ہنس کر فرمایا:

"واہ واہ! شاگرد کا خوش ہونا تو بنتا ہے، استاذ بھی ان شاءاللہ دیکھ کر اظہار مسرت کریں گے۔"


بہرحال، آج کی اس قسط میں بس اتنا ہی۔ جیسے جیسے جو جو باتیں کام کی یاد آتی جائیں گی، ان شاءاللہ پیش کرتا جاؤں گا اور بتاتا جاؤں گا کہ اعتدال پسندی، آدابِ اختلاف، حدود اختلاف اور حقوقِ شاگردی و استاذی کوئی ہمارے بڑوں سے سیکھے۔


(نو محرم الحرام چودہ سو سینتالیس ھجری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے