سنو سنو!!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : بحیثیت مہمان
(ناصرالدین مظاہری)
اسلام کے ابتدائی ایام میں مدینہ منورہ کی فضائیں صرف ایمان کی خوشبو سے نہیں بلکہ محبت اور خدمت کی روشنی سے بھی جگمگا رہی تھیں۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دلوں میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم موجیں مار رہا تھا اور آنکھوں میں محبت و عقیدت کی روشنی جھلک رہی تھی۔ یہی عشق تھا جس نے ان کے گھروں، مال و جان اور ہر نعمت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے لئے وقف کردیا تھا۔
یہی وہ خلوص تھا جو ہر عمل میں جھلکتا، اور یہی وہ برکت تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور نظرِ شفقت سے ہر چھوٹے بڑے کام کو جنت کی خوشبو میں بدل دیتی۔ صحابہ نے جب تھوڑا سا کھانا بھی پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے وہ سینکڑوں کے لیے کافی ہوگیا۔ یہ داستانیں محض کھانے پینے کی مثالیں نہیں بلکہ محبت، اخلاص اور قربانی کی زندہ جھلکیاں ہیں جو ہر زمانے کے انسان کے دل کو روشنی عطا کرتی ہیں۔
حضرت انسؓ کے گھر ولیمہ:
حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینبؓ سے نکاح فرمایا تو میری والدہ حضرت اُمّ سلیمؓ نے کچھ ستو تیار کیا۔ میں وہ خدمتِ اقدس میں لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برکت کی دعا کی اور فرمایا: بعض صحابہ کو بلا لاؤ۔ پھر تھوڑے کھانے سے تقریباً تین سو اصحاب نے کھایا اور سب شکم سیر ہوگئے۔
(صحیح بخاری)
حضرت سعد بن عبادہؓ کی خدمت:
حضرت سعد بن عبادہؓ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے خادم اور میزبان تھے۔ جب بھی کوئی مہمان آتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر انہیں سعدؓ کے گھر بھیج دیتے۔ وہ بڑے اہتمام اور شوق سے خدمت کرتے۔ ایک مرتبہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے گھر تشریف لے گئے تو انہوں نے کھانے اور مشروبات کا خاص انتظام کیا۔
(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام)
حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا واقعہ:
ہجرت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مکان پر قیام پذیر ہوئے۔ وہ دن رات خدمت کے لئے حاضر رہتے۔ رات کو کھانا بھیجتے اور صبح باقی کھانے کو دیکھ کر عرض کرتے:
"یا رسول اللہ! آج آپ نے فلاں چیز کیوں نہ کھائی؟"
پھر جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک لگتے وہ جگہ ڈھونڈ کر خود وہیں سے کھاتے تاکہ برکت حاصل ہو۔
(صحیح مسلم)
یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس واقعہ سے باسی کھانا کھانے کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے، کیونکہ میزبان حضرت ابو ایوب تھے اور مہمان خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
حضرت جابرؓ کا کھانے کا معجزہ:
غزوہ خندق کے موقع پر صحابہ سخت بھوک میں تھے۔ حضرت جابرؓ نے اپنی اہلیہ سے کہا: کچھ کھانا تیار کرو، میں چپکے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلاتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا گیا مگر آپ نے صرف چند افراد پر اکتفا نہ کیا، بلکہ پورے لشکر کو بلا لیا۔ اللہ کے حکم سے وہ تھوڑا کھانا اتنا بڑھا کہ سینکڑوں صحابہ شکم سیر ہوگئے۔
(صحیح بخاری)
حضرت انسؓ کا خصوصی موقع:
ایک مرتبہ حضرت انسؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مدینہ کی ایک چھوٹی سی روٹی اور گوشت تیار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، تناول فرمایا اور دعا دی۔ حضرت انسؓ کو اس پر ہمیشہ فخر رہا کہ میرے گھر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا کھایا۔
(الشمائل المحمدیۃ للترمذی)
ان واقعات سے یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ مہمان بننا بھی سنت ہے اور میزبانی کرنا بھی سنت۔ مگر ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ معجزات وابستہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے تھوڑا کھانا سینکڑوں کے لئے کافی ہوگیا اور میزبان پر کوئی بوجھ نہ پڑا۔
اس لئے یہ طریقہ اختیار کرنا کہ دعوت ایک کی ہو اور پہنچ جائیں کئی لوگ، یہ ہمارے لئے مناسب نہیں۔ وہاں معجزہ تھا، یہاں زحمت ہے۔ وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل حکمت سے معمور تھا، یہاں ہمارا عمل لوگوں کے لئے بوجھ بن جائے گا۔
پس معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ محبت، اخلاص اور حکمت کے ساتھ میزبانی کرنا بھی سنت ہے اور مہمان بننا بھی، مگر ہر حال میں اپنے عمل کو حکمت اور سنت کے تابع رکھنا ضروری ہے۔
(30/ربیع الاول چودہ سو سینتالیس ہجری)
0 تبصرے