65a854e0fbfe1600199c5c82

فخر ہے ایسی بیٹیوں پر

 


فخر ہے ایسی بیٹیوں پر


( ناصرالدین مظاہری)


اللہ تعالیٰ نے امتِ محمدیہ کو ایسی ایسی عظیم بیٹیوں سے نوازا ہے جو نہ صرف گھرانے کے لیے باعثِ عزت ہوتی ہیں بلکہ دین کی خدمت اور امت کی رہنمائی کا ذریعہ بھی بنتی ہیں۔ تاریخ کے صفحات پر ان خواتین کے نقوش بڑے روشن اور تابندہ ہیں، جنہوں نے تقویٰ، پردہ اور علم کے ساتھ ایسی عظمت کی داستان رقم کی کہ بڑے بڑے علماء اور محدثین بھی ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔


فقیہ ملت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کے ملفوظات میں ایک ایمان افروز واقعہ مذکور ہے۔ حضرت شاہ عبدالغنی محدث دہلویؒ (مہاجر مدنی) کی صاحب زادی، امۃ اللہ رحمۃ اللہ علیہا مدینہ منورہ میں سکونت پذیر تھیں۔ بڑے بڑے محدثین اور جلیل القدر علماء ان کی خدمت میں حاضر ہوتے اور وہ پردے کی کامل رعایت کے ساتھ حدیث شریف اور نصائح ارشاد فرماتیں۔


حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ جیسے فقیہ العصر اور حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ جیسے محدثِ دہر ان کی مجلس میں حاضری کو اپنے لیے سعادت سمجھتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک مصری عالم بھی ان کے کمالاتِ علمی اور فنِ حدیث میں مہارت کا شہرہ سن کر اجازتِ حدیث لینے کے لیے حاضر ہوئے۔


امۃ اللہ صاحبہؒ نے پردے کے اندر سے فرمایا:

"کوئی کتابِ حدیث لے آئیے اور عبارت پڑھ دیجیے تاکہ اجازت دی جاسکے۔"


چنانچہ اس عالم نے ایک کتاب پیش کی اور اس سے عبارت خوانی کی۔ اس پر امۃ اللہ صاحبہؒ نے علمی تقریر شروع کی۔ دلائل و براہین کے ساتھ ائمہ اربعہ کے اقوال پیش کیے۔ فرمایا:


میرے والد حضرت شاہ عبدالغنی محدث دہلویؒ نے اس حدیث کی بابت یہ فرمایا ہے۔


حضرت امام مالکؒ نے یہ کہا ہے۔


حضرت امام شافعیؒ کی رائے یہ ہے۔


یوں اپنے استحضار اور علمی گہرائی کے ساتھ محدثین کے اقوال اور فقہاء کے استدلالات ذکر کیے اور حاضرین پر اپنی علمی برتری منوا لی۔


یہ واقعہ ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ اسلامی تاریخ صرف مرد علماء کے کارناموں سے نہیں بھری ہوئی، بلکہ خواتین بھی اپنے تقویٰ، پردے اور علم کی بدولت امت کے لیے نمونہ و سرمایہ افتخار رہی ہیں۔


امۃ اللہ رحمۃ اللہ علیہا جیسی بیٹیاں اس امت کا فخر ہیں، جو اپنی علمیت اور پاکیزگی کے ساتھ یہ پیغام دیتی ہیں کہ عورت جب دین کے رنگ میں ڈھلتی ہے تو اس کی برکتیں قیامت تک باقی رہتی ہیں۔


(انیس ربیع اول چودہ سو سینتالیس ہجری)


)شاہ جہاں پور سے لکھیم پور کی طرف بس میں میں بے بس بیٹھے بیٹھے لکھا گیا ہے)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے