مہمانی اور میزبانی کے آداب
(ناصرالدین مظاہری)
کئی دن سے مہمان اور میزبان زیرِ قلم ہیں۔ مہمانوں کا اکرام و احترام کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے، لیکن توازن کے طور پر نبی رحمتؐ نے میزبانوں کی رعایت اور ان کی راحت کا بھی خیال فرمایا ہے۔ دونوں کے حقوق ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت رکھنا ضروری ہے۔
ذیل میں چند آداب میزبان کے اور کچھ آداب مہمان کے درج کیے جاتے ہیں:
★ میزبان کے آداب
مہمان کا استقبال کرنا۔ (بخاری)
مہمان کی مہمان نوازی اس کا حق سمجھ کر کرنا۔ (بخاری)
صاحبِ خانہ کا مہمان کی از خود خدمت کرنا۔ (سمن و آداب)
مہمان کی خاطر اپنی بساط سے زیادہ تکلّف میں نہ پڑنا۔ (ابن ماجہ)
مہمان جب تک رہے، اس سے اچھا سلوک کرنا۔
مہمان کو رخصت کرنے کے لیے گھر کے دروازے تک جانا۔ (سمن و آداب)
تین دن تک ضیافت سنت ہے، اس کے بعد محض نیکی اور احسان۔
سادگی، خلوص اور عزت کے ساتھ خدمت کرنا۔
مہمان کو شرمندہ یا بوجھ محسوس نہ ہونے دینا۔
مہمان کو کوئی کام نہ سونپنا۔
مہمان کے سامنے گھر کے کسی فرد پر غصہ نہ کرنا۔
احسان نہ جتانا اور نہ ہی کوفت ظاہر کرنا۔
★ مہمان کے آداب
میزبان کی دعوت کو قبول کرنا۔ (مسلم)
اجازت اور ملاقات کے آداب کی رعایت کرنا۔ (سمن و آداب)
کھانے پینے کے آداب کی رعایت کرنا۔ (ایضا)
میزبان پر بوجھ نہ بننا۔ (بخاری)
میزبان کے گھر میں اپنے بچوں کو مطلق العنان (آزاد، کہ جس سے میزبان یا اس کے گھر والوں اور سامان کو نقصان پہنچے) نہ چھوڑنا۔ (بخاری)
مہمان نوازی پر میزبان کا شکریہ ادا کرنا۔ (ترمذی)
میزبان کے گھر کو اپنا موروثی حق نہ سمجھنا۔
تین دن سے زیادہ ٹکنے میں احتیاط کرنا، جب تک میزبان کی وسعت نہ دیکھ لے۔
کھانے اور آرام میں حد سے زیادہ مطالبہ نہ کرنا۔
میزبان کے نظام میں دخل اندازی سے بچنا۔
میزبان کی کوئی اچھی چیز دیکھ کر فرمائش نہ کرنا۔
میزبان کے گھر میں قیام کے دوران بلا اجازت کسی چیز کو ہاتھ نہ لگانا۔
مہمان میزبان سے یہ نہ پوچھے کہ یہ کہاں سے خریدی، کتنے میں خریدی وغیرہ۔
غیر ضروری باتیں نہ پوچھنا، جیسے: "یہاں کون سی مٹھائی مشہور ہے؟" وغیرہ۔
ہر حال میں شکر گزاری اور دعاؤں کے ساتھ رخصت ہونا۔
اگر میزبان نے کسی خاص مہمان کے لیے کوئی چیز رکھی ہو تو دوسرے مہمانوں کو چاہیے کہ اس میں شریک نہ ہوں، الا یہ کہ وہ مہمان خود اجازت دے۔
کھانے میں کمی نہ نکالے اور نہ ہی بعد میں برائی کے ساتھ اس کا تذکرہ کرے۔
ضیافت کسی مقابلے یا دکھاوے کا نام نہیں، بلکہ یہ دلوں کو جوڑنے، تعلقات کو سنوارنے اور شریعت کے آداب نبھانے کا ایک حسین موقع ہے۔
(اٹھارہ ربیع الاول چودہ سو سینتالیس ہجری)
0 تبصرے