میزبان کو ستانے کے طریقے
(ناصرالدین مظاہری)
مہمان نوازی کے فضائل پر کتابیں بھری پڑی ہیں۔ لیکن افسوس! کسی نے یہ نہیں بتایا کہ مہمان میزبان کو کیسے ستائے؟
آج ہم آپ کے سامنے وہی سنہری اصول پیش کر رہے ہیں جن پر عمل کر کے آپ اپنے میزبان کو "میزبانِ محترم" سے "میزبانِ مظلوم" بنا سکتے ہیں۔
🔴 گھریلو تقاضے فوراً پیش کریں 🔴
سب سے پہلا اصول یہ ہے کہ آپ اپنی گھریلو عادات اور آرام و آسائش کو سفر میں بھی ساتھ لے آئیں۔ مثلاً فرمائیے:
"کمرے میں ایک گلاس گائے کا دودھ اور تھوڑی سی کشمش رکھوا دیجیے، تہجد کے وقت اس سے حوصلہ ملتا یے۔"
🔴 کتابیں اور سامانِ عیش طلب کریں 🔴
کچھ ادبی تقاضے بھی لازمی ہیں۔ مثلاً:
"فلاں فلاں کتابیں بھی کمرے میں رکھوا دیجیے تاکہ علمی مشغلہ رہے، اور ہاں! ساتھ میں شیشے کا جگ اور گلاس بھی ہو، مسواک اور منجن الگ سے رکھوا دینا۔"
🔴 نئے کپڑے اور لوازمات 🔴
پرانا استعمال کیوں کیا جائے؟ بے دھڑک فرمائیے:
"ایک مدراسی نئی لنگی، نئی چپل اور نیا تولیہ رکھوا دیجیے، کیونکہ مجھے مستعمل کپڑے پسند نہیں ہیں۔"
🔴 خصوصی لباس و بستر کا مطالبہ 🔴
مزید انوکھا مطالبہ یہ ہو سکتا ہے:
"بھاگل پوری چادر اور نیا تکیہ ضرور ہونا چاہیے، تب ہی آرام کی نیند آئے گی۔"
🔴 چھوٹے مگر اہم مطالبات 🔴
چھوٹے چھوٹے کام بھی لازمی ہیں، جیسے:
"ٹشو پیپر کا ڈبہ رکھوا دیجیے، اور ہاں اگر ممکن ہو تو خوشبو والا روم فریشینر بھی لگا دیجیے۔"
🔴 خدمت کے لیے عملہ 🔴
یاد رہے! مہمان کو ہمیشہ شان و شوکت دکھانی چاہئے۔ لہٰذا اصرار کریں:
"دو تین طلبہ مستقل خدمت پر رہیں، کوئی پانی لائے، کوئی ٹانگیں دبائے اور کوئی موبائل چارجر سنبھالے۔"
🔴 کھانے کے وقت فرمائشیں 🔴
کھانے پر کبھی قناعت نہ کریں۔ لازمی کہیں:
"جی آج کچھ خاص ہو جائے: چکن کڑاہی، ساتھ میں کھیر اور مٹھائی، اور ہاں! چائے الائچی والی ہو۔"
🔴 سفر کی تیاری بھی میزبان کے ذمے 🔴
واپسی پر فرما دیجیے:
"بھائی ہمیں اسٹیشن تک پہنچا دینا، ٹکٹ پہلے سے بنوا دینا، اور اگر پلیٹ فارم پر سامان رکھنے والا مل جائے تو کرایہ بھی آپ ہی دے دیں۔"
اگر آپ نے یہ تمام سنہری اصول اپنا لیے تو میزبان کو ایسا لگے گا جیسے آپ مہمان نہیں بلکہ "تحصیلدار صاحب" بن کر آئے ہیں۔
اور جاتے وقت اس کے دل سے صرف ایک ہی دعا نکلے گی:
جل تو جلال تو آئی بلا کو ٹال تو۔
میرے ایک دوست ہیں، یہیں شہر میں ایک مدرسہ کے مہتمم بھی ہیں۔
انھوں نے کچھ عرصہ قبل ایک پیر ناتمام کو بلا کر بھاری غلطی کی تھی۔ خیر، دو ماہ پہلے خود ہی آگئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ:
"مفتی صاحب! فلاں مولانا صاحب کے پاس ملاقات کے لئے جانا ہے۔"
میں سمجھ گیا کہ اب ان کی شامت آنے اور شانت جانے والی ہے۔
میں نے کہا کہ ابھی مت جائیں، پہلے ان سے فون کرکے پوچھ لوں کہ کہاں ہیں۔
میرا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں تھا کہ وہ ہوشیار ہو جائیں۔
چنانچہ میں نے فون کیا اور پوری بات بتائی اور یہ بھی کہا کہ آپ خود ہی بتا دیجیے کہ کہاں ہیں۔
اب ایک تو عالم، وہ بھی ہونہار و تجربہ کار، بھلا ملاقات کہاں اور کیسے ممکن تھی؟
(سولہ ربیع الاول چودہ سو سینتالیس ہجری)
0 تبصرے