65a854e0fbfe1600199c5c82

مولانا سید محمد شاہد سہارنپوری اور مولانا محمد سعیدی کے ایک سفر کی دلچسپ روداد

 

مولانا سید محمد شاہد سہارنپوری اور مولانا محمد سعیدی کے ایک سفر کی دلچسپ روداد


(ناصرالدین مظاہری)


گورکھپور والوں کو حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ سے بڑی محبت و عقیدت تھی۔ ایک شادی میں شرکت کے لیے بذریعہ ٹرین گورکھپور کے لیے رختِ سفر باندھا۔ سہارنپور ریلوے اسٹیشن پہنچے، اپنے متعینہ کوچ میں جیسے ہی داخل ہوئے تو دیکھا کہ مرحوم مولانا سید محمد شاہد سہارنپوری بھی اسی کوچ میں پہنچے ہوئے ہیں۔ دونوں بڑے تپاک سے ملے۔ ان دونوں کی ملاقات، انداز اور پرمزاح گفتگو دیکھ کر کوئی بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ ادارتی سطح پر دونوں کے درمیان بڑی خلیج واقع ہے۔ ایک وقفِ علی اللہ کا مؤید و علمبردار، دوسرا سوسائٹی ایکٹ رجسٹریشن کا حامی و مؤید۔


تھوڑی دیر گزری تھی کہ دوپہر کے کھانے کا وقت ہوگیا۔ کھانا ہمارے ساتھ بھی تھا اور کھانا مولانا کے ساتھ بھی۔ مولانا چونکہ شوگر کے مریض تھے، اس لیے قیمہ میں بنے کریلے اور روٹیاں تھیں۔ ہمارے ساتھ بھی الحمدللہ خوش ذائقہ کھانا موجود تھا۔ طے ہوا کہ ایک ساتھ کھائیں گے۔ مولانا کے ہمراہ مولوی اسعد حقانی سلمہ بھی خادم کی حیثیت سے تھے۔ جلدی جلدی کھانا چنا گیا۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو میں نے سہارنپور کے ایک اہم ہوٹل سے بنی ہوئی ایک نادر مٹھائی کا ڈبہ سامنے رکھ دیا۔ یہ مٹھائی اصل میں مٹھائی کم، ڈرائی فروٹ زیادہ تھی، اس لیے مولانا سید محمد شاہد سہارنپوری صاحب نے شوگر کے باوجود ماشاء اللہ کھائی اور پسند کی۔


ہمارا یہ تاریخی سفر بمشکل سات گھنٹے ساتھ رہا۔ پھر لکھنؤ آگیا جہاں مولانا کو اترنا تھا۔ ہم اسی ٹرین سے آگے گورکھپور کے لیے روانہ ہوگئے۔


منزل الگ ہونے کے بعد ناظم صاحب اچھے الفاظ سے مولانا کے اخلاق کا تذکرہ کرتے رہے اور لمبا سانس کھینچ کر فرمایا:

"کاش یہ اختلاف نہ ہوا ہوتا!"


بہرحال، مولانا سید محمد شاہد سہارنپوری رحمہ اللہ کی عام عادت تھی کہ آتے جاتے جو بھی ملتا، ہلکا سا سر خم کرکے، معمولی سا ہاتھ اٹھا کر سلام ضرور کرتے تھے۔ دو سال پہلے مولانا کا انتقال ہوگیا، اور اب دو تین ہفتے پہلے ہمارے ناظم صاحب رحمہ اللہ بھی اچانک داغِ مفارقت دے گئے۔


مولانا سید محمد شاہد سہارنپوری رحمہ اللہ کے صاحبزادے مفتی محمد صالح صاحب اور ان کے ادارہ کے بہت سے اساتذہ و ملازمین نے ناظم صاحب کے جنازہ و تدفین میں شرکت کی۔ مفتی صاحب کا ایک تعلیمی ادارہ قبرستان حاجی شاہ کمال الدین کے بالکل قریب واقع ہے جس کی نظامت مولانا سید محمد یاسر صاحب کر رہے ہیں۔ وہاں نہ صرف نماز جنازہ میں شرکت کے لیے آنے والے مہمانوں کے لیے کار پارکنگ کا معقول نظم کرایا، بلکہ ٹھنڈے پانی کا انتظام بھی کیا۔


ایک دن اچانک راستے میں مجھ سے ملاقات ہوگئی تو بڑے کرب کے ساتھ کہا:

"مولانا محمد سعیدی صاحب کے انتقال کا ہمیں بڑا افسوس ہے، بالکل اندازہ نہیں تھا کہ اتنی اچانک چلے جائیں گے۔ میں مولانا کے صاحب زادگان سے تعزیت کر چکا ہوں، لیکن چونکہ آپ سے ان کا بڑا تعلق تھا، اس لیے آپ سے بھی اظہارِ تعزیت کرتا ہوں۔"


کچھ سال پہلے تک دونوں اداروں میں بڑی ہستیاں موجود تھیں، مگر خدا جانے کیسی ہوا چلی کہ سارے ہی بڑے ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔


حضرت ناظم صاحب کے استاذِ محترم مولانا سید محمد عاقل صاحب بھی بیالیس دن پہلے( 29/شوال 1446ھ ) کو فوت ہوئے تھے۔ ناظم صاحب پہلے تو دولت کدہ پہنچ کر عیادت کے لیے گئے، پھر انتقال کے بعد تعزیت کی، نماز جنازہ میں شرکت کی، پھر چند دن بعد دوبارہ مولانا سید محمد عاقل صاحب رحمہ اللہ کی قبر پر حاضر ہوئے، ایصالِ ثواب بھی کیا۔ اور اچانک اپنے خادم سے کہا:

"اس وقت یہاں کوئی بھی بزرگ قبرستان میں موجود نہیں ہے۔"

خادم نے حیرت سے پوچھا:

"تو پھر یہ لوگ ہیں کہاں؟"

ذرا توقف کے بعد فرمایا:

"روضۂ نبوی ﷺ والے چبوترے پر موجود ہیں۔"


کاش کہ یہ فاصلے اور دوریاں، جن کو کم اور ختم کرنے کی ہمارے بڑوں نے شروعات کی تھی، وہ خوش گوار سلسلہ چلتا رہے یہاں تک کہ دلوں کی دوریاں ختم ہو کر سب شیر و شکر ہو جائیں۔


إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ، وَلَهُ مَا أَعْطَى، وَكُلٌّ عِندَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى، فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ۔


(دو محرم الحرام 1447ھ)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے