مساجد کے مصلے
(ناصرالدین مظاہری)
یہ بات میں تمام مساجد کی نہیں کررہا۔ بے شک بہت سے ائمۂ کرام نفیس الطبع بھی ہوتے ہیں اور ان کے مصلے سے مسجد نبوی کی صفوں کی طرح خوشبو بھی آتی ہے۔ مگر کچھ مسجدیں میں نے دیکھی ہیں کہ کسی حاجی یا معتمر کا دیا ہوا مصلی زندگی سے ریٹائرمنٹ لے لیتا ہے مگر پانی کی دست رس سے دور رہتا ہے۔
عموماً ہم مساجد کے حسن و جمال پر غور کرتے ہیں: فرش شاندار، منبر خوبصورت، چھت لاجواب، مینار بلند ترین، ونڈو کھڑکیاں حسین، محراب منقش، پنکھے آہا! لیکن دو ہی چیزیں ایسی ہیں جو اکثر ہمارے لیے تکلیف دہ ثابت ہوتی ہیں:
1. وضو خانے والے لوٹے۔
2. امام صاحبان کا مصلی!
جی ہاں! وہی مصلی جس پر وہ سجدہ کرتے ہیں، لیکن عموماً اتنا گندا کہ سجدہ کے دوران سانس لینا بھی مشکل ہو جائے۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم صرف اللہ کے قرب کی طلب میں نہیں، بلکہ جراثیم کی تلاش میں بھی ہیں۔
دل حیران رہ جاتا ہے کہ اتنی خوبصورت مساجد میں یہ چھوٹی مگر اہم چیزیں کیوں نظر انداز کر دی جاتی ہیں؟ شاید ہم اس بات کو معمولی سمجھ بیٹھے ہیں کہ “بس، یہ عام بات ہے”، لیکن حقیقت میں یہ ہماری عبادت کی کیفیت اور سکون پر براہِ راست اثر ڈالتی ہے۔
یہی نہیں، سفید براق کلف والے کپڑے پہنے امامانِ عالی مقامان کا ذوق اور گندی طبیعت بھی واضح ہوتی ہے۔ بعض مصلی تو ایسے لگتے ہیں جیسے پچھلے رمضان میں اعتکاف بیٹھے تھے اور تب سے اب تک وہیں بیٹھے رہ گئے ہیں!
آپ حضرات امام صاحب کے مصلے کے تقدس اور عظمت کی وجہ سے پاؤں بھی نہیں رکھتے۔ کبھی سجدہ کرکے دیکھیں، سارا تقدس اور ساری عظمت دھری کی دھری رہ جائے گی۔ سوچیں! ایک طرف ہمارا دل اللہ کی طرف ہے، اور دوسری طرف ہمارا جسم مصلی کی وجہ سے جھنجھلاہٹ اور بے آرامی محسوس کر رہا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ أُمَّتِي، حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِيهَا النُّخَاعَةَ فِي الْمَسْجِدِ لَا تُدْفَنُ” (مسلم)
یعنی راستے سے اذیت کی چیز ہٹانا نیک عمل ہے اور مسجد میں گندگی چھوڑنا برا عمل ہے۔
مسجد کی تعمیری خوبصورتی تبھی مکمل ہوتی ہے جب وہاں آنے والا ہر فرد روحانی سکون کے ساتھ ساتھ جسمانی صفائی کا بھی لطف اٹھائے۔
لہٰذا آئیں! ہم اپنی مسجد کے ذمہ داروں کو یاد دلائیں کہ:
مصلے کی صفائی بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنی چھت کی تزئین، منبر کی خوبصورتی یا ونڈوز کی شیشے کاری۔
مصلیان، متولیان اور ٹرسٹیان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مسجد کے قرآن کریم کے جزدان، کپڑے کی صفیں، امام کے مصلے، چاندنی، لوٹے اور ٹوپیاں وغیرہ یا تو خود اپنے گھر کی واشنگ مشین سے دھلیں یا دھوبی سے دھلوائیں۔
اور یہ بھی یاد رکھیں: جب تک مصلی صاف نہیں ہوگا، سانس بھی اللہ کے ذکر میں آدھا ادھورا رہے گا۔ خشوع و خضوع اور خلوص بھی کیسے باقی رہے گا؟ لمبے لمبے سجدے کیسے ہوسکیں گے؟
صفائی ایمان کا حصہ ہے، اور ایمان کی خوشبو صرف دل سے نہیں بلکہ مصلی سے بھی آنی چاہیے۔
(چھ ربیع الثانی چودہ سو سینتالیس ہجری)
0 تبصرے