سنو سنو!!
جب آپ مہمان بنیں
(ناصرالدین مظاہری)
میزبانی بھی سنت ہے، مہمانی بھی سنت ہے۔ ہمارے حضرت فقیہ الاسلام مفتی مظفر حسین رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ:
جب کسی کے یہاں مہمانی میں جاؤ تو کچھ نہ کچھ ضرور کھاؤ۔ اور اگر بالکل ہی کھانے پر طبیعت راغب نہ ہو تو بھی ایک آدھ قاش، ایک دو بادام یا جو کچھ موجود ہو مثلاً ایک آدھ بسکٹ یا نمکین ضرور کھالو، تاکہ میزبان کی دلجوئی ہو اور بعد میں وہ احساس نہ کرے کہ کچھ بھی نہیں کھایا۔
اسی طرح ایک موقع پر کچھ لوگ آپ کی خدمت میں پہنچے تو ناشتہ وغیرہ کا حکم دیا۔ مہمانوں نے معذرت کی تو مسکرا کر فرمایا کہ ہمارے حضرت مولانا منظور احمد خان کہا کرتے تھے:
"من زار قوما ولم یذقہ شیئا فکانما کان زار میتا"
(یہ عبارت بطورِ مزاح فرماتے تھے)
یعنی "جس نے کسی قوم (یا جماعت) کی زیارت کی اور ان سے کچھ (کھانے پینے کی چیز) نہ چکھی، تو گویا اس نے مردہ کی زیارت کی۔"
یعنی ملاقات اور مہمان نوازی کا تقاضا ہے کہ کچھ کھانے پینے کا تبادلہ ہو، ورنہ ملاقات بے جان سی رہ جاتی ہے۔
چند باتوں کا خیال رکھیں:
بہرحال! آپ جب کسی کے مہمان بنیں تو دو چار باتوں کا خیال ضرور رکھیں:
صابون جو غسل خانے میں رکھا ہوا ہے، وہ سلیقہ کے ساتھ رکھیں۔
تولیہ منہ پونچھنے کے لئے ہوتا ہے، جوتے صاف کرنے یا جوتے کا گردوغبار جھاڑنے کے لئے نہیں۔
بیت الخلاء سے فارغ ہونے کے بعد اپنے کئے کرائے پر اتنا پانی پھینکیں کہ "باقیات" نظر نہ آئیں۔
کچھ لوگ بے خیالی میں ایسے فارغ ہو جاتے ہیں کہ گندگی اوپر ہی رہ جاتی ہے، جو بعد والے مہمانوں یا میزبانوں کے لئے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔
کمرے سے نکلتے وقت زیر استعمال لحاف، تکیہ اور چادر ہر چیز کو سلیقہ سے رکھیں۔ یعنی ایسے ہی رکھیں جیسا آپ کو سلیقہ سے رکھا ہوا ملا تھا۔
غسل خانے اور بیت الخلاء میں:
اجنبی جگہ غسل خانہ یا بیت الخلاء پہنچنے کے فوراً بعد دو چیزوں کا خاص خیال رکھیں:
1. فرش پر پانی یا چکناہٹ تو نہیں ہے کہ خدا نخواستہ پھسلنے کا خطرہ ہو۔
2. ٹنکی میں پانی ہے کہ نہیں؟ بلکہ پہلے ہی لوٹا پانی سے بھر لیں، کیونکہ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ پانی چیک کیا تو موجود، مگر جب استعمال کرنے کی نوبت آئی تو اچانک پانی ہی ختم ہو گیا۔ اب آپ کیسے پانی مہیا کرائیں گے؟ ایک ناقابلِ بیان اذیت سے دوچار ہوں گے کیونکہ عموماً ایسے موقع پر لوگ فون بھی ساتھ نہیں رکھتے۔
بستر کی احتیاط:
بے شک آپ کا بستر، تکیہ اور چادر پہلے سے بچھی ہوئی ہے، مگر کیا پتہ کب کی بچھی ہوئی ہیں۔ بہتر ہے کہ آپ خود ہی ایک بار جھاڑ کر، تکیہ اٹھا کر پھر سے یہ چیزیں ترتیب دیں تاکہ خدا نخواستہ تکیے کے نیچے کوئی موذی جانور یا کاکروچ نہ ہو۔ اسی طرح گردوغبار سے بھی حفاظت رہے۔
(سات ربیع الثانی ۱۴۴۷ھ)
0 تبصرے