65a854e0fbfe1600199c5c82

آداب کا قتل عام

 


سنو سنو!!
آداب کا قتل عام


(ناصرالدین مظاہری)


انسان کی اصل پہچان اس کا علم، دولت یا طاقت نہیں بلکہ اس کے آداب ہیں۔ جو لوگ اپنی چھوٹی چھوٹی عادتوں کو معمولی سمجھ لیتے ہیں، دراصل وہ اپنی شخصیت اور اپنی مجلس کا جنازہ نکال رہے ہوتے ہیں۔ آئیے دیکھیں چند چلتے پھرتے مناظر:


مسواک والے حضرت جی

مسواک کرنا سنت ہے، مگر کچھ حضرات نے اسے نمائش بنا دیا ہے۔ مسجد ہو یا بازار، بات کرتے کرتے، چلتے چلتے، بس یا ٹرین میں مسواک ہاتھ میں اور دانتوں کی موسیقی شروع۔ ارے بھائی! سنت کا مطلب پردے میں صفائی ہے، مجمعِ عام میں ڈرامہ نہیں۔


ناک و کان کنسٹرکشن والے

بعض حضرات ناک میں انگلی اس طرح گھماتے ہیں جیسے کوئی کھدائی مشین لگا رکھی ہو۔ اب سوچیے، یہ ناک کی گندگی کہاں جائے گی؟ مسجد کی صف پر؟ مجلس کے فرش پر؟ یا آپ کے برابر والے ساتھی کے کپڑوں پر؟ سوچ کر ہی کراہت آتی ہے۔


خلال کے فنکار

خلال کرنا بھی سنت ہے، مگر کچھ لوگ اس کو "لائیو شو" بنا دیتے ہیں۔ پورا منہ کھول کر، ریشہ نکال کر، اور پھر شعیب اختر کی گیند کی طرح فضا میں اڑا دینا۔ اب یہ ریشہ کہاں گرے گا؟ کسی کے دامن پر، یا مسجد کی صف پر، یا پھر سامنے بیٹھے ہوئے معصوم و بے گناہ شخص پر۔


آنکھوں کا میل

کچھ اصحاب آنکھ کے کنارے سے میل نکال کر بڑے فخر سے دیکھتے ہیں، جیسے کوئی قیمتی ہیرے جواہرات مل گئے ہوں۔ پھر کبھی کپڑے پر رگڑ دیتے ہیں، کبھی مسجد کے فرش پر۔ کیا مقدس جگہیں اس سلوک کے لائق ہیں؟


کھجلی والے صاحبان

یہ حضرات جہاں بیٹھتے ہیں وہیں جسم کی پراپرٹی ڈیلنگ شروع کر دیتے ہیں: کبھی سر، کبھی کمر، کبھی کان کے پیچھے، کبھی ٹانگوں کے درمیان اور کبھی کبھی تو "تشریف" کو ہی مشقِ ستم بناتے ہیں۔ دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ یہ مجلس ہے یا کھجلی کلینک!


ریح کی بارودی سرنگیں

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں نہ مسجد کا خیال ہے نہ مجلس کا۔ جہاں بیٹھے ہیں، وہیں "بم" یا "پھلجھڑی" چھوڑ دیتے ہیں۔ اب چاہے آواز آئے یا نہ آئے، اس کا "روحانی" اثر سب پر ہوتا ہے۔ مجلس مکدر ہو جاتی ہے، لوگ کراہت سے اٹھنے لگتے ہیں۔ کیا یہ آدابِ مجلس ہے؟


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

«المُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ المُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ»

(مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے محفوظ رہیں)


یقیناً "بدبو" سے بچانا بھی اسی میں داخل ہے۔


حدیث شریف ہے:

«البُزَاقُ فِي المَسْجِدِ خَطِيئَةٌ، وَكَفَّارَتُهَا دَفْنُهَا» (بخاری و مسلم)

یعنی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "مسجد میں تھوکنا گناہ ہے، اور اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے دفن کر دیا جائے۔"


یہ سب حرکتیں — ناک کی صفائی، آنکھوں کا میل، دانتوں کے ریشے، کھجلی اور ریح کے دھماکے — بظاہر چھوٹی باتیں ہیں، مگر حقیقت میں بڑی بے آدابی ہیں۔ اسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ:


مسجد اور مجلس کے تقدس کا خیال رکھو۔


دوسروں کو ایذا دینا ایمان کے خلاف ہے۔


صفائی اور ستھرائی کا وقت تنہائی ہے، مجمعِ عام نہیں۔


مسواک کو عبادت بنائیے، نمائش نہ بنائیے۔


خلال کو سنت بنائیے، ڈرامہ نہ بنائیے۔


ناک کو ناک ہی رہنے دیجئے، کان کنی کا میدان نہ بنائیے۔


اور کھجلی اور خاموش دھماکوں کو گھر کے کمرے میں چھوڑئیے، مسجد و مجلس میں مت لائیے۔


یہ چھوٹی چھوٹی احتیاطیں انسان کے بڑے آداب کا پتہ دیتی ہیں۔

اسلام نے ہمیں صرف نماز اور روزہ نہیں سکھایا بلکہ یہ بھی سکھایا ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ بیٹھنے، اٹھنے اور رہنے سہنے میں بھی مہذب اور خوشگوار بنیں۔


(دو ربیع الثانی چودہ سو سینتالیس ہجری)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے