(ناصرالدین مظاہری)
دورِ حاضر فتنوں سے بھرا ہوا ہے۔ نہ معلوم کب کوئی بہک جائے، کب کوئی بھٹک جائے اور کب کوئی لٹک یا اٹک جائے۔ اسی لیے ہمارے اکابر ہمیشہ پیش بندی اور احتیاط کے قائل رہے۔ وہ فرماتے تھے کہ:
"جو شخص چھوٹی ذمہ داری میں خیانت کرسکتا ہے، وہ بڑی ذمہ داری اسی لیے چاہتا ہے کہ زیادہ خیانت کر سکے۔"
اسی لیے مخلصین ہمیشہ عہدوں سے دور بھاگتے رہے، اور جب وہ بھاگتے ہیں تو عہدے خود ان کا پیچھا کرتے ہیں۔ بڑے مخلصین نے ہمیشہ ایسے ہی مخلصین کو عہدے سپرد کیے ہیں۔
شیخ سعدیؒ فرماتے ہیں:
"عہدے خردمندوں کو سونپو، اگرچہ عہدہ قبول کرنا عقل مندوں کا کام نہیں۔"
عہدہ امانت ہے، عزت نہیں
حضرت ابوذرؓ غفاری نے نبی کریم ﷺ سے ایک سرکاری عہدے کی خواہش ظاہر کی، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
’’یَا أَبَا ذَرٍّ اِنَّکَ ضَعِیْفٌ، وَ اِنّھَا أَمَانَۃٌ، وَ اِنّھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ خِزْیٌ وَ نَدَامَۃٌ، اِلَّا مَنْ أَخَذَھَا بِحَقِّھَا وَ أَدَّی الَّذِی عَلَیْہِ فِیْھَا‘‘
(صحیح مسلم، کتاب الامارۃ)
"اے ابوذرؓ! تم کمزور ہو، اور یہ (امارت) امانت ہے۔ یہ قیامت کے دن رسوائی اور ندامت ہے، سوائے اس شخص کے جو اس کے حقوق ادا کرے اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔"
یعنی عہدہ دنیا کی عزت نہیں بلکہ آخرت کی آزمائش ہے۔
عہدہ مانگنے والے کے لیے وعید
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے اپنے دو رشتہ داروں کے لیے عہدہ مانگا، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
"إِنَّا وَاللَّهِ لَا نُوَلِّي عَلَى هَذَا الْعَمَلِ أَحَدًا سَأَلَهُ، وَلَا أَحَدًا حَرَصَ عَلَيْهِ"
(صحیح بخاری و مسلم)
"اللہ کی قسم! ہم کسی ایسے شخص کو ذمہ داری نہیں دیتے جو اسے مانگے یا اس پر حریص ہو۔"
اسی طرح حضرت عبدالرحمن بن سمرہؓ کو فرمایا:
"لَا تَسْأَلِ الْإِمَارَةَ، فَإِنَّكَ إِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إِلَيْهَا، وَإِنْ أُعْطِيتَهَا عَنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عَلَيْهَا"
(صحیح بخاری و مسلم)
"امارت (عہدہ) مت مانگو، کیونکہ اگر تم نے مانگ کر لیا تو اس کے حوالے کر دیے جاؤ گے، اور اگر بغیر مانگے ملا تو اللہ کی مدد شامل ہوگی۔"
اکابر کی عملی مثال
یہی تعلیم ہمارے اکابر میں عملی صورت میں دیکھی جاتی ہے۔
فقیہ الاسلام حضرت مولانا مفتی مظفر حسین رحمہ اللہ ناظم مظاہرعلوم خالص علمی شخصیت تھے۔ آپ کو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی رحمہ اللہ اور مناظر اسلام حضرت مولانا محمد اسعداللہ رحمہ اللہ (ناظم مظاہرعلوم) نے مدرسہ کی نظامت سونپنی چاہی، تو حضرت نے صاف انکار کردیا۔ اس انکار اور حضرت شیخ کے اصرار کا تذکرہ حضرت شیخ کے بعض خطوط میں موجود ہے۔
صرف یہی نہیں کہ ان بزرگوں نے مفتی صاحب کو یہ عہدہ دینا چاہا بلکہ دعائیں بھی کرتے رہے۔ ہم لوگ دعائیں چھوڑ کر تعویذ گنڈوں اور غنڈوں کا سہارا لینے لگتے ہیں، اور کمال کی بات یہ ہے کہ یہ سب دین کے نام پر ہوتا ہے۔ استغفرُللہ ربی من کل ذنب۔
اسی طرح حضرت مولانا سید محمد واضح رشید ندویؒ نے ایک موقع پر نہایت سختی کے ساتھ قبولیت عہدہ سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ یہ بوجھ ہم اٹھانے کے قابل نہیں۔ یہی اکابر کا اسوہ ہے کہ وہ عہدہ ڈھونڈتے نہیں بلکہ اس سے بھاگتے ہیں۔
ووٹ بھی امانت ہے
یہ بات بھی یاد رہے کہ ووٹ دینا بھی ایک شہادت اور امانت ہے۔ اگر ہم نے ووٹ جیسی امانت نااہل کے سپرد کردی تو کل اللہ کے یہاں ضرور پکڑ ہوگی۔
لہٰذا عہدہ دیتے وقت صرف لیاقت، اہلیت، دیانت اور للہیت دیکھنی چاہیے۔ جو شخص عہدے کا حریص اور لالچی ہو، اسے اسی کے لالچ کی وجہ سے محروم کر دینا چاہیے، کیونکہ یہ اسوۂ رسول ﷺ اور معمولاتِ نبوی کی صریح خلاف ورزی ہے۔
(پندرہ ربیع الاول چودہ ربیع الاول چودہ سو سینتالیس ہجری)
0 تبصرے