65a854e0fbfe1600199c5c82

زہے مقدّر قسط (1) حضورِ حق سے پیام آیا

 (زہے مقدر)
قسط ۱ 


(حضورِ حق سے پیام آیا)

۲۰ ستمبر ۲۰۲۵ 



رات کا پورا ایک بجا ہے۔ بالکل وہی وقت کہ جس کے کسی لمحے میں جانے کن تصورات سے مغلوب ہو کر اور جانے کس کروٹ پہلو بدلتے ہوئے پروین شاکر بدبدائی ہوں گی۔

رات کے شاید ایک بجے ہیں

سوتا ہوگا میرا چاند

لیجیے وقت دیکھا اور بے ساختہ یہ شعر یاد آیا۔ اس شعر کا یاد آنا تھا اور خیال گزرا کہ زمین سے چاند تو بہت دیکھا، دیکھیں ذرا آسمان سے چاند کیسا نظر آتا ہے۔ آسمان کی بلندیوں سے چاند چھونے کی تمنا میں دائیں جانب لگی کھڑکی سے باہر جھانکا۔ چاند ندارد۔۔۔رات کے کسی گوشے میں پڑا سویا ہوگا کمبخت!

 چاند تو نظر نہ آیا لیکن جو منظر اس وقت نظر آ رہا ہے وہ کسی چاند کے دیدار سے بڑھ کر مسحور کن ہے۔ 

رات کی تاریکی میں ڈوبی زمین کی کالی چادر پہ جگ مگ جگ مگ کرتے لاتعداد چاند ستارے بکھرے پڑے ہیں اور ان کے عین وسط میں ایک طویل قامت چمکدار، سنہرا ناگ بل کھائے پڑا ہے۔ گویا کسی شہنشاہ کے خزانے کی پہریداری پہ تعینات اژدہا۔ 

زمین کے سیاہ دامن پہ زرد برقی روشنیوں نے جو جغرافیائی نقشہ کھینچ دیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ یہ کوئی جزیرہ ہے جس کے آسمان پر فی الوقت ہم محو پرواز ہیں۔ اور سنہری کینچلی میں لپٹا یہ ناگ اس جزیرے تک پہنچنے کا رستہ۔۔۔

اسے دیکھ کر بچپن میں سنی دیوامالائی کہانیوں کا وہ جسیم قامت، زرد رنگ کا بزرگ ناگ یاد آ گیا جس کی طوالت میلوں تک پھیلی ہوتی اور وہ اپنی بزرگی کے باعث اس قدر بے حس و حرکت صحراؤں میں پڑا رہتا کہ راہ نورد اسے رستہ جان کر اس کی پشت پر چل پڑتے اور جب اس کے دہانے تک پہنچتے تو ہوش اڑ جاتے۔ لیکن یہ جزیرہ برقی روشنیوں سے چمچماتے ہوئے اس اژدہے کا دہانہ نہ تھا بلکہ جزیرے کے عین وسط میں پڑا یہ ناگ اس جزیرے کا سینہ چیرتے ہوئے تیرہ و تاریک زمین کے ایک چھور سے دوسرے چھور تک جانے کہاں گم ہو گیا تھا۔ 

لیجیے پھر ایک بار سارے عالم کو تیرگی نے آ لیا۔ آئیے جب تک تاریکی ذرا کچھ چھٹ جائے اور جہاز توجہ کھینچ لینے والی ایسی ہی کسی روشن بستی سے ہو کر گزرے تب تک کچھ گفت و شنید کر لیں۔  

whatsapp.com/channel/0029Vb5b5cl6GcG6c2fvnP21


وہ اوائل ستمبر کی ایک خوبصورت شام تھی۔ موسم گرما چل چلاؤ کی تیاری میں تھا ، سورج کا مزاج نرم ہو چلا تھا، شام کی فضاؤں میں ذرا خنکی در آئی تھی اور نم آلود شامیں کسی اداس دوشیزہ کی طرح حسین ہو اٹھی تھیں۔ معمول کے مطابق یونیورسٹی کینٹین پر شام کی چائے جرعہ جرعہ روح کو معطر کر رہی تھی کہ اسی لمحے موبائل فون کی اسکرین روشن ہوئی۔ اسکرین پر چھوٹی بہن فائزہ کا نام چمک رہا تھا۔ بے اختیار دل نے کہا : اوہ خدایا اس کا فون رسیو کرکے ایسی حسین شام تباہ کرنا نری حماقت ہے۔ عموما گھر والوں نے مجھے فون کرنے کا یہی وقت انتخاب کر رکھا ہے ۔ کیونکہ انہیں علم ہے کہ اسی وقت میری طبیعت اور فرصت دونوں مائل بہ کرم رہتی ہیں ۔ لیکن فائزہ ۔۔۔ میری طبیعت چوپٹ کرنے کا دوسرا نام ہے۔ عجیب لاپرواہ ، لاابالی اور الہڑ قسم کی لڑکی۔ خیر یہ اس کی عمر کا تقاضہ ہے جو مجھے ذرا نہیں بھاتا۔ اس کی گفتگو میں گفتگو سرے سے ہوتی ہی نہیں۔ نہ سلام نہ کلام، اول تا آخر بس کھی کھی کھی ۔۔۔ اس سے ایک گھنٹہ گفتگو کرنے کے بعد آپ الفاظ و معانی کی جمع تقسیم کرئیے تو بمشکل دو ایک جملے ہی کام کے نکال پائیں گے۔ اس کا بس ایک ہی تعارف ہے۔ وہ ہنستی ہے اور بس ہنستی جاتی ہے۔ بے اختیار ،بے ساختہ اور بے پناہ۔۔۔ وہ خوش ہوتی ہے تو ہنستی ہے ۔ وہ بہت خوش ہوتی ہے تو بہت ہنستی ہے۔ وہ روتے روتے ہنستی ہے اور ہنستے ہنستے روتی ہے۔ اور ہنسی بھی ایک عجب ردھم کے ساتھ۔۔۔ کبھی ہی ہی ہی کبھی کھی کھی کھی۔۔۔ یعنی اگر موسیقار ہنسی کو سنگیت کا حصہ بنانا چاہیں تو روئے زمین پر انہیں اس لڑکی سے بہتر موسیقیت سے بھرپور ہنسنے والا کوئی نہیں ملےگا۔ پاپا اس کی ہنسی کے تئیں فکر مند ہو کر اکثر اس سے کہتے ہیں کہ ہوش کر لے لڑکی مر جائے گی۔ جوابا اپنی مخصوص ہنسی کے ساتھ کہتی ہے : “اس سے بہتر اور کیا ہوگا ، دنیا مجھے یوں یاد کرے کہ ہنستے کھیلتے مر گئی بیچاری” 

اور پھر اُس کی اِس معصومانہ خواہش پہ سب ہنس پڑتے ہیں۔ بہر حال میرے سوا گھر کے بقیہ تمام افراد اُس کی اِس ہنسی خوشی میں خوش ہیں۔ اس معاملے میں مرشد جون میرے پیر و مرشد جو ٹھہرے:

کیا تکلف کریں یہ کہنے میں 

جو بھی خوش ہے ہم اس سے جلتے ہیں

میرا مزاج ان ہلڑ بازیوں کامتحمل ہرگز نہیں ہو سکتا۔ یہ دل تو مائل بہ خزاں ہے۔ پت جھڑ ہی طبیعت کو راس ہے اور بس اداسی ہی دل کو بھاتی ہے۔ اسے میرے اس کمزور پہلو کا علم بھی خوب ہے سو پہلے تو ہنستی ہے اور پھر میرا جی جلانے کو مزید ہنستی ہے۔


بہر کیف موسم کی نرمی طبیعت پہ یوں اثر انداز تھی کہ معجزانہ طور پہ فائزہ کا فون رسیو کر لیا گیا۔ دوسری جانب سلام تک ندارد۔۔۔ بس وہی کھلکھلاتی ہوئی آواز ۔۔۔ لیکن یہ کھلکھلاہٹ معمول سے سوا تھی جس سے ظاہر تھا کہ کھلکھلانے والی کے پاس یقینا کوئی انتہائی خوش آئند بات ہے اور شدت جذبات سے مغلوب وہ الفاظ کی ادائیگی سے قاصر ہے۔ البتہ اتنا تو ان گنہگار کانوں نے سنا : “ایک بات بتاؤں۔ ہی ہی ہی۔۔۔”

اور پھر ہنسی کا یہ سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ میں نے بھی کوئی حجت نہ کی۔ موسم کی خوشگواری کا نتیجہ تھا کہ اس کی ہنسی بھی ناگوار نہ لگی۔ بغیر اس کو ڈانٹے ڈپٹے چپ چاپ موبائل کان پہ لگائے اطمینان سے اس کی ہنسی سنتی رہی کہ جب تنہا ہنستے ہنستے تھک چکے گی تو اوب کر خود ہی دل کی لگی بیان کر دے گی۔ جب ہنسنے والی کے حواس ذرا درست ہوئے تو چند الفاظ کی جمع ترتیب کرکے ایک جملے میں یہ مژدۂ جاں فزا سنا دیا گیا: “ ہم عمرہ پر جا رہے ہیں۔ ہی ہی ہی۔۔۔” 

استفسار کیا “ہم سے مراد؟” 

جواب ملا: “ امی ، میں اور شہاب بھائی جان۔ ہی ہی ہی”

تیر سیدھا جگر پہ جاکے لگا۔ دل نے بڑی ملامت کی کہ یہ چار دن کی لڑکی تو عمرہ پہ جائے گی بس تم ہی اس دنیا میں خوار ہوتی پھرو۔ 

پوچھا: کب؟

جواب ملا: چھ ستمبر کو

دل کٹ کے رہ گیا۔ حساب لگا کر سوچا : ہمم !یعنی اب سے ٹھیک ہفتہ بھر بعد۔ 

حکم دیا : فون رکھو ۔ کیا تمہیں خبر نہیں کہ تمہارے گھر میں میرا فیصلہ حرفِ آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔ 

دوسری جانب چہچہاتا ہوا لہجہ یکلخت مرجھا گیا کہ اب جانے کیا ہو۔ اور سہم کر کال ڈسکنکٹ کر دی گئی۔۔

۔

مگر بات یہاں سے شروع نہیں ہوئی تھی۔ گذشتہ کئی برسوں سے کبھی حج اور کبھی عمرہ کے ارادے بنتے اور بگڑتے رہے۔ اور ہر بار پرچی صرف تین ناموں کی اٹھائی جاتی۔ امی ، پاپا اور شہلا۔ لیکن پاپا کے پاسپورٹ کا مسئلہ ایک بڑی رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ اور پاپا کے بغیر اس سفر پہ نکلنا بڑا خود غرضانہ عمل محسوس ہوتا تھا۔ سو ہم نے اس مبارک ساعت کے لیے برسوں انتظار کیا۔ لیکن یہ مسئلہ کسی صورت حل ہوتا نظر نہ آیا ۔ پاپا کا پاسپورٹ نوے کی دہائی میں بنا تھا۔ اس کے بعد طویل مدت بیرونی ملک کا کوئی سفر نہ ہو سکا ۔ پاسپورٹ کی عمر معینہ مدت سے تجاوز کر چکی تھی اور اب مسئلہ پاسپورٹ ری ایشو پر آکر اٹک گیا تھا۔ جانے کون سی رکاوٹ تھی جو ہزار کوششوں کے باوجود راہ کی دیوار بنی کھڑی تھی۔ دن مہینے سال گزرتے گئے۔ ارادے بنتے اور بگڑتے رہے۔ آخر کار اس بار امی کا پیمانۂ صبر لبریز ہو اٹھا۔ انہوں نے بچوں کی طرح ضد باندھ لی کہ ایک لڑکی اور لڑکا میرے ساتھ کرکے مجھے اسی ماہ عمرہ پہ روانہ کیا جائے۔ اور تب تک آپ اپنے پاسپورٹ کا مسئلہ سلجھائیں تاکہ اسی برس آپ کے ساتھ حج پہ بھی نکل سکوں۔ پاپا گویا ہر بات پہ راضی۔ کہنے لگے : بھئی بسم اللہ۔ ہم نے کب روکا۔ ناحق ہمارے چکر میں پڑ کر تم لوگ وقت ضائع کیے جاتے ہو۔ اور یوں ان تین ناموں پر فیصلہ ہو گیا۔ لیکن میرے دل پہ سیاہی کے وہ دبیز پردے پڑے ہوئے تھے کہ روشنی کی کوئی ادنی کرن بھی وہاں تک پہنچنے سے قاصر تھی۔ طبیعت کسی صورت مائل نہ ہوئی اور انکار کر دیا کہ میرے سوا کسی اور کو دیکھ لیں۔ یوں میری سیٹ فائزہ کو مل گئی۔ حالانکہ ترتیب کے اعتبار سے مجھ سے چھوٹی والی بہن شاہین کا حق تھا۔ لیکن وہ ٹھہری ایثار و قربانی کی زندہ مثال۔ جبکہ اس کے اس جذبے کو میں صرف بلی کا بکرا بننے سے تعبیر کرتی ہوں ۔ اور اس کو سمجھا سمجھا کر تھک گئی ہوں کہ اس بے مہر دنیا میں یہ ایثار و قربانی والے چونچلے کرنا بند کرو ورنہ تم سے چھوٹے بھی یونہی تمہارا حق کھاتے رہیں گے۔ یہ دنیا بہت ظالم ہے اس کے ہمراہ چلتے ہوئے اگر تم ٹھہر گئے تو تمہیں روندتے ہوئے آگے نکل جائےگی۔ لیکن اس کے کانوں پہ جوں تک نہیں رینگتی اور وہ مسکرا مسکرا کے یونہی اپنے حق بانٹتی پھرتی ہے۔ میرے گھر کا ہر فرد اپنے آپ میں ایک عجوبہ ہے گویا یہ گھر نہیں بلکہ آٹھ افراد پہ مشتمل ایک عجائب خانہ ہے۔ دو روشن دماغ اور زندہ دل ماں باپ جن کا گارجئین میں خود ہوں کہ میرے بغیر ان کی زندگی کا کوئی فیصلہ طے نہیں پاتا۔ اور ان دونوں کے تخلیق کردہ چھ عجیب و غریب نمونے۔ جن میں سے پانچ میرے بھائی بہن کہلاتے ہیں ۔ ان تمام میں بزرگیت کا شرف خدا کی قدرت سے مجھی کو حاصل ہے۔ 


بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ لیکن یہ تعارفی گفتگو یوں بھی ضروری تھی کہ اب آپ کو آئندہ سفر میں میرے ہمراہ انہی میں سے کچھ لوگ نظر آئیں گے۔ 

بہر کیف ادھر فائزہ کا فون رکھا اور ادھر پاپا کا نمبر ڈائل کیا۔ اور سلام دعا کے بعد صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ آپ کے بغیر کوئی کہیں نہیں جا رہا۔ لہذا اب آپ وہ تمام تر امکانات بتائیے جن میں پاسپورٹ کا مسئلہ حل ہونے کی کوئی صورت نکل آئے۔ نیز وہ دن تاریخ بھی ہمیں چاہیے کہ جس میں آپ کا پاسپورٹ آپ کے ہاتھوں میں ہو۔ اور یوں چھ ستمبر والا فیصلہ منسوخ کرا کے پاپا کو اس کام پہ لگا دیا۔ ہر دن کئی کئی مرتبہ فون کر کرکے پاپا کی بجائے پاپا کے پاسپورٹ کا حال احوال دریافت کرتی۔ وہ تنگ آ جاتے۔ ڈانٹ پھٹکار بھی سنی کہ نہیں ہو پا رہا تو کیوں ضد کرتی ہو۔ لیکن اس ضد کے آگے انہیں الہ آباد ہائی کورٹ تک بھی جانا پڑا تو وہ گئے۔اس دوران کئی بار امید بندھی اور ٹوٹی کہ ان شاء اللہ فلاں فلاں دن تاریخ تک کام ہو جائےگا پر نہ ہوا۔ اس تمام عرصے میں میرے دل میں ایک عجیب ہلچل ہوتی رہی کوئی ترنگ تھی جو مسلسل دل کے تار چھیڑ رہی تھی۔ ایک خیال رہ رہ کے کچوکے لگاتا کہ اپنے ہی ہاتھوں زندگی کا جو حشر کر لیا ہے اس کا تھوڑا بہت ازالہ بس اسی صورت ممکن ہے۔ فائزہ کے فون کی گھنٹی نے جو ساز رگوں میں چھیڑ دیا تھا آخر کار ایک دن اس نے دل پہ پڑے تمام پردے چاک کر ڈالے۔ اور ایک شام گھر فون کرکے شرمندہ شرمندہ سے لہجے میں کہا : میں بھی چلوں؟ 

جواب ملا: بسم اللہ، ہم تو پہلے ہی کہتے تھے۔

 وفورِ جذبات سے دل بھیگ گیا۔ عجیب بے یقینی سی تھی کہ کیا واقعی یہ سب اسی قدر آسان تھا۔ بس میں کہوں اور ہو جائے۔ 

 ہونقوں کی طرح بیٹھ کر سوچا کرتی کہ مجھ سا گنہگار اور اتنی آسانی سے خدا راضی ہو گیا۔ لیکن پھر اس دوران ایسی ایسی رکاوٹیں بھی آئیں کہ اگلے پچھلے تمام گناہ یاد آ گئے۔ 


ادھر فائزہ سٹپٹا گئی تھی۔ اسے اس خوف نے آ لیا کہ اس کی سیٹ ہاتھوں سے گئی۔ چنانچہ اسے یقین دلایا گیا کہ تمہاری بہن ایثار و قربانی کی نہیں بلکہ اس کے نام پر کسی بھی قسم کی ناانصافی اور حق تلفی کی سخت مخالف ہے۔ تمہیں زبان دے کر اس سے مکر جانا اور تم سے یہ قربانی مانگنا تمہارے حق میں بڑی زیادتی ہوگی لہذا بے فکر رہو تم بھی جا رہی ہو اور میں بھی۔ 

وہ چہک کر پھر سے کھی کھی کرنے لگی۔ کیونکہ اسے یقین تھا کہ میں ہی اس گھر کی وہ وکیل ہوں جو گھر کے سپریم کورٹ یعنی پاپا کے حضور ان ننھے منے وکٹمز کی عرضیاں پیش کرکے لمحہ بھر میں ان کے حق میں فیصلہ دلا سکتی ہوں۔ 


 تمام معاملات طے پا گئے لیکن پاپا کا پاسپورٹ ہنوز سر درد بنا ہوا تھا۔ مسئلہ حل ہو جانے کا یقین تو ہو چکا تھا لیکن کب تک؟ اس کا کوئی تعین نہ ہو سکا تھا۔ اور امی کی ضد بدستور قائم تھی کہ کسی بھی صورت اسی ماہ جانا ہے۔ چنانچہ ایک دوسری راہ نکالی گئی۔

بیس ستمبر کا پیکج خریدا اور گھر کے آٹھ افراد میں سے پانچ ناموں کا انتخاب ہوا۔ امی، پاپا، چھوٹا بھائی شہاب، چھوٹی بہن فائزہ اور میں ۔ لیکن صورت یہ تھی کہ اگر اس دوران پاپا کا پاسپورٹ مل جاتا ہے تو شہاب کو رکنا ہوگا اور اگر نہیں ملتا ہے تو مجبورا تین خواتین کو لے کر اسے روانہ ہونا ہوگا اور پاپا رہ جائیں گے۔ لیکن خالق کائنات کا دربار بہت وسیع ہے۔ اور بے شک وہی سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے۔ وہ اپنے کسی بندے کو اپنے پاس مجبورا یا آپشن کے طور پر کیوں بلانے لگا۔ خدا کا چمتکار کہ ادھر ہم نے زاد سفر باندھا اور ادھر پاپا کا پاسپورٹ آ گیا اور اب ہمارے پہنچنے کے دو دن بعد ان شاء اللہ پاپا بھی ہمارے قافلے کا حصہ ہو جائیں گے۔ اور دو دن بعد اس قافلے کی راہبری شہاب کے ہاتھ سے پاپا کے ہاتھ منتقل ہو جائے گی۔  

دو بجنے کو ہیں ۔ آپ سے اچھی خاصی تمہیدی گفتگو ہو گئی۔ 


اس دوران گاہے گاہے نظریں دائیں جانب لگی کھڑکی سے زمیں والوں کو جھانکتی رہیں۔ کہیں گھنی روشن بستیاں نظر آتیں تو کہیں مکمل تاریک خلا۔اور کہیں وہی سنہرے طویل و جسیم ناگ رات کی کالی چادر پہ بل کھائے پڑے تھے۔ اسی اثنا ایک نظر بائیں جانب اٹھائی تو بھری پوری فلائٹ میں سناٹا پاؤں پسارے دراز تھا ہمارے ارد گرد کے سبھی لوگ اونگھ رہے ہیں۔ بس چند ایک ہی ہم ایسے دیوانے ہیں جن کی نگاہ شوق سے آج کی رات نیند روٹھ گئی۔۔۔

رات کے دو بج رہے ہیں ۔ موبائل اسکرین اکیس ستمبر کی خبر دے رہی ہے۔ لیکن چونکہ ہمارا سفر بروز سنیچر بیس ستمبر سے شروع ہوا ہے لہذا اس دن کی روداد بھی سنتے جائیے۔  

گھر سے اندرا گاندھی دلی ائیرپورٹ تک کا سفر ویسا ہی عامیانہ رہا۔ رات دس بجے کی فلائٹ تھی ۔ لیکن چونکہ ہمیں دلی میں بہت سے ضروری کام تھے لہذا ہم صبح ہوتے ہی گھر سے نکل پڑے۔دلی پہنچ کر سب سے پہلے چھوٹی بہن زم زم سے ملاقات کی غرض سے ہمدرد اکیڈمی اسکول کے دروازے پہ دستک دی۔ 


لاپرواہی کی داد دیجیے کہ سب سے اہم شے یعنی پاسپورٹ ہی ہاسٹل روم پر چھوڑ کر گھر چلی گئی تھی ۔ لہذا یہاں سے نپٹ کر یونیورسٹی کا رخ کیا۔ کیونکہ یونیورسٹی اندرا گاندھی ائیر پورٹ کے نزدیک ہی ہے۔ بہر کیف اسی طرح کے دیگر چھوٹے بڑے ضروری کام نپٹاتے ہوئے شام ہونے تک ہم ائیر پورٹ پہنچ گئے۔ پرواز میں ابھی خاصہ وقت تھا۔ دستاویزات کی تصدیق و تحقیق نیز اسی قسم کے تمام تکلفات و مراحل سے گزر کر ہم لاؤنج میں پہنچ گئے۔ اور وقت گزاری کے لیے گھومتے گھامتے کھاتے پیتے ائیر پورٹ کا معائنہ کرنے لگے۔ ائیرپورٹ پر کھانے پینے سے لے کر ہر شے کی قیمت بازار کی عمومی قیمت سے کہیں زیادہ ہوا کرتی ہے۔ ہم تین جوانوں کے ساتھ امی کی صورت ایک ادھیڑ عمر خاتون بھی تھیں۔ پاپا کی شریک حیات۔۔۔ جن کا ہاتھ انہوں نے چار و ناچار ایک پاک سفر کی خاطر “بچوں” کے ہاتھ میں تھما دیا تھا۔ ہم تینوں کے سر پہ بڑی ذمے داری تھی۔ دو دن بعد پاپا کے پہنچتے ہی ہمیں ایک ایک لمحے کا حساب دینا تھا کہ ان کے جگر گوشے کے ساتھ ہم نے کیا سلوک کیا۔ لہذا مہنگے سستے کی پرواہ کیے بغیر ہم تینوں ہی بڑھ چڑھ کے ان کی دلجوئی میں مصروف تھے۔ شہاب اپنی دانست میں سمجھتا رہا کہ مرد ہونے کے ناطے تین خواتین کی ذمےداری اس کے سر ہے۔ مجھے یہ گمان کہ بڑی ہونے کی خاطر میں سب کی ذمےدار۔ اچانک ایک جگہ neck pillow پر نظر پڑی۔ اپنی کوتاہی کا خیال آیا۔ امی کو ہر طرح کا آرام دینے کی دھن سر پہ سوار تھی چنانچہ ڈھائی سو روپے کا تکیہ ائیرپورٹ سے پچیس سو روپے کا خریدا۔ اس قصے سے بے خبر امی بچوں کے اس جذبے پہ نثار ہوئی جاتی تھیں ذرا جو بھنک لگ جاتی کہ ان کی خاطر ہم نے قیمت سے سمجھوتہ کیا تو یہی جذبہ ہمیں الٹا پڑ جاتا۔


 بہر حال مجھے یہ ائیر پورٹ کئی معنوں میں پسند آیا۔ ائیر پورٹ لاؤنج کے ذرا سے ٹکڑے میں پہنچ کر یوں لگا کہ ہم شدت پسندی کی انتہاؤں کو پہنچے ہوئے ہندوستان سے کوسوں دور ہیں ۔ اور ہندوستان کا جو نقشہ اس وقت بن چکا ہے ، ائیر پورٹ کا یہ ٹکڑا اس کا حصہ ہی نہیں۔ میں اور فائزہ قطار میں تھے۔ دستاویز کی تحقیقات پہ تعینات کارکن کام کے دوران ہم سے تعارفی قسم کی گفتگو کے بعد سفر کی بابت دریافت کرتا رہا ۔ اور ہم اسے مسلمانوں کے لیے اس سفر کی اہمیت اور سفر کے دوران کی جانے والی چند بنیادی “activities “ کے بارے میں بتاتے رہے؛ جیسا کہ اس کا سوال تھا۔ 

اگلے پڑاؤ پر ہم نے خاتون کارکن سے ونڈو سیٹ کی فرمائیش کی اور اس نے مسکرا کر دو کھڑکیاں ہمارے نام درج کر دیں۔ 


ایک اور خوشگوار شے ائیرپورٹ پر حاجیوں اور معتمروں کے لیے مردانہ اور زنانہ مساجد نما کمرے اور وضو خانوں کا صاف ستھرا انتظام تھا۔ 

ہم نے مغرب اور عشا وہیں پڑھی۔ پرواز کا وقت قریب ہو چلا تھا۔ نماز پڑھ کر مردوں نے وہیں سے احرام باندھا۔ یوں تو احرام مقام میقات سے باندھا جاتا ہے۔ میقات ان مقامات کو کہا جاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم کے چہار سمت مقرر کر دئیے ہیں۔ لیکن ہندوستان پا_کستا_ن سے سفر کرئیے تو مقام میقات اس وقت آتا ہے جب آپ محو پرواز ہوں۔ اور اس مقام پر پہنچ کر جہاز کا عملہ باقاعدہ طور پر اعلان کرتا ہے کہ آپ کا میقات آ چکا ہے۔لیکن جہاز بلا تفریقِ جنس لوگوں سے بھرا ہوتا ہے لہذا جہاز کے اندر احرام باندھنے کی نسبت ائیرپورٹ سے احرام باندھنا زیادہ آسان ہے۔ خواتین کے لیے ایک بڑی سہولت ہے کہ ان کے لیے احرام کے لباس کی کوئی قید نہیں۔ 

رات دس بجے تک ہم سعودی ائیر لائن کے خوبصورت جہاز میں داخل ہو چکے تھے۔ ہماری نشستیں جہاز کے بالکل آخر میں تھیں ۔ کھڑکی والی نشست سنبھالتے ہی فائزہ کے روحانی نظام میں موجود ہی ہی والے پرزے activate ہو گئے۔ وہ جہاز کی آخری نشست پہ بیٹھ کر اس لیے خوش تھی کہ چلو اب نظاروں کے ساتھ ساتھ جہاز کی پنکھڑی بھی مکمل اور واضح نظر آئے گی جو نظاروں کی رونق بڑھانے میں خاصی کارگر ہوگی۔


لیجیے ڈھائی بجنے کو ہیں اور جہاز کے عملے کی جانب سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ اب سے آدھے گھنٹے بعد آپ مقام میقات سے گزریں گے۔ جو اونگھ رہے تھے ان کے بھی کان کھڑے ہو گئے ۔ اور جہاز کی مدھم مدھم روشنی میں لوگوں کی دھیمی دھیمی سرگوشیاں گھُلنے لگیں۔


ہندوستانی وقت کے مطابق رات دس پندرہ پر جہاز نے اڑان بھری۔ ہندوستان کا دل، دلی برقی روشنیوں میں جھلملا رہا تھا۔ میں نے رات کی سیاہ چادر پر برقی روشنیوں کا یہ طلسم کوہستانی سلسلوں کی تاریک وادیوں میں خوب دیکھا۔ گویا پہاڑوں کے دامن پر سلسلے وار کسی نے ستارے موتی ٹانک دئیے ہوں۔ لیکن آسمان سے یہ نظارہ طلسمات کی کسی اور ہی دنیا کا در کھولتا ہے۔ گویا شہنشاہِ وقت نے کسی تاریک کمرے میں ہیرے جواہرات سے بھرے صندوق الٹ دئیے ہوں۔ کہیں کہیں سفید اور زرد روشنیوں کے بیچ چمکتی سرخ روشنیاں یوں محسوس ہوتیں گویا بجھتے ہوئے کوئلے کی سفید راکھ کے اندر پوشیدہ دہکتا ہوا سرخ انگار جو بجھتی ہوئی سفید پرتوں کی درزوں سے جھانک رہا ہے۔ 


ادھر جہاز نے بلندی پکڑی اور ادھر نیٹورک غائب۔ ہماری techno geek نسل بس اسی صورت میں کاغذ قلم کی جانب رخ کرتی ہے۔ بلکہ قلم کتاب تو کجا ٹیکنالوجی سے باہر کی تمام دنیا ہی ایسے وقت میں یاد آتی ہے حتی کہ پہلو میں موجود خونی رشتے اور تعلقات بھی۔ میں نے بھی کسی ایسے ہی خراب وقت کے لیے پشت پہ دھرے مختصر سے بیگ میں چند ضروری اشیا کے ساتھ ساتھ ایک عدد پاکٹ سائز ڈائری اور قلم رکھ چھوڑے تھے۔ اس عہد کے ساتھ کہ جہاں کہیں وقت اور موقع نصیب آیا وہیں بیٹھ کے کچھ روداد سفر رقم کر لی جائےگی۔ اور اسی ایفائے عہد کی پاسداری میں پچھلے دو تین گھنٹوں سے میں داستان گوئی میں مصروف ہوں کہ موقع بھی ہے، دستور بھی۔ یوں بھی نہ نیند نیناں نہ انگ چیناں والی صورت حال ہے۔ ایسے میں کچھ نہ کرنے سے بہتر ہے، کچھ بھی کرئیے۔۔۔ یہی سہی!

جیسے ہی جہاز جگمگاتی دلی سے نکل کر ذرا تاریک خلاؤں میں داخل ہوا، دن بھر کی تکان کے سبب غنودگی نے آ لیا۔ ایک طویل سفر کے پیش نظر میں نے بھی کوئی جبر نہ کیا اور کھڑکی سے ہٹا کر آنکھوں کو نیند کی تحویل میں دے دیا۔  

تقریبا بارہ بجے ہوں گے کہ ایک غیر مانوس لہجہ سماعتوں سے ٹکرایا ۔ مادام! چکن اور مٹن؟

 وہ ایک ترکی نوجوان تھا۔ اس کی زبان کے حروف تہجی میں ہندئ الاصل حروف کا کیا کام ۔ لہذا آپ اسی کے تلفظ میں مٹن کو متن پڑھیئے۔ ت پر فتحہ کے ساتھ۔ بالکل اسی طرح جس طرح اردو ادب کے کچھ اسکالرز اور پروفیسرز text والے متن کو مَتَن پڑھا کرتے ہیں۔   

بھوک زوروں پر تھی۔ دیر سے جہاز میں پھیلتی مختلف قسم کے کھانوں کی خوشبو نیند میں خلل ڈال رہی تھی۔ سعودی ائیر لائن کا شمار دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس کا کھانا بھی ویسا ہی ہوگا۔ اچھی کوالٹی کے ساتھ ساتھ اچھے آپشن بھی ہیں۔ یہاں بھی ہم نے ذرا سی عقلمندی دکھائی۔ ہم چار لوگ دو دو کرکے تین نشستوں والی دو سیٹوں پہ براجمان ہیں۔ ہم نے مینو کا انتخاب اس طرح کیا کہ ہر سیٹ پر موجود دو ساتھیوں نے ایک دوسرے سے مخلتف کھانے کو چنا ۔ اور اس طرح مل بانٹ کر سب نے سب ذائقے چکھ لیے۔

کھانے وغیرہ سے فارغ ہوتے ہوتے ایک بج گیا اس کے بعد کی کہانی سے امید ہے اب تک آپ سب واقف ہو چکے ہوں گے۔ نہ جانے کون سا وقت تھا جب موبائل اسکرین پر یکلخت وقت بدل گیا۔ اور یکدم تقریبا ڈھائی گھنٹے پیچھے پہنچ کر ہم نے time travel کا لطف لیا۔


عرب گھڑیال کے مطابق صبح کے 3:20 ہو رہے ہیں۔ جدہ کے کنگ عبد العزیز انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر جہاز اترنے کا اعلان کیا جا رہا ہے۔کھڑکی کے باہر نظارہ بڑا ہی سحر انگیز ہے۔ گویا نیم تاریکی میں ڈوبے ہوئے صحرائے عرب نے کائنات کی ہر چمکتی اور جگمگاتی ہوئی شے چن چن کر اپنے وسیع دامن میں بھر لی ہے۔صبح کے اس پہر سرزمین عرب میں ۳۱ ڈگری تاپمان کی نوید سنائی جا رہی ہے۔ لیکن اس وقت جذبات کی حدت کے آگے یہ تپش ہیچ معلوم ہوتی ہے۔ اللہ اللہ آخر وہ وقت آیا کہ جب روح وفور شوق سے جھوم جھوم کر گنگنا اٹھی۔ 

زہے مقدر حضور حق سے پیام آیا، سلام آیا۔۔۔


✍🏻شہلا کلیم

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے