65a854e0fbfe1600199c5c82

یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ قسط (36)

 


یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ


(قسط نمبر 36)

(ناصرالدین مظاہری)


اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو جہاں تھا وہیں رہ گیا۔ قرب و جوار کے بعض مدارس کے طلبہ جو سہارنپور پہنچے اور انھیں "اگلی منزل" کے لئے ٹرین وغیرہ سے سفر کرنا تھا مگر ترتیب نہ بنی تو مظاہرعلوم وقف میں رہ گئے۔ ایسے طلبہ کی بڑی تعداد یہاں پہنچی ہوئی تھی۔


ناظم صاحب کو کورونا وائرس کی حساسیت کا اندازہ بھی تھا اور خدشہ بھی کہ خدا نخواستہ کوئی طالب علم اگر نزلے، زکام، کھانسی وغیرہ نارمل بیماری کا شکار ہوا تو سارے ہی طلبہ مشکل میں پڑ جائیں گے۔ اس لئے ایسے طلبہ سے اپیل کی کہ وہ اپنے اپنے مدارس میں واپس چلے جائیں۔ پھر بھی تین سو کے قریب طلبہ باقی بچ گئے جو فوری طور پر نہیں جاسکے تھے۔ مدرسہ نے ان کے لئے ہر ممکن طعام و قیام اور راحت کا نظام برقرار رکھا۔


طلبہ کی ہر ضرورت پوری ہوتی رہے اس کے لئے عبدالعظیم دکاندار کو مدرسہ میں ہی دکان کے لئے ایک بڑا کمرہ دے دیا گیا اور اس طرح ماشاء اللہ کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔


جناب مولانا احمد مظاہری صاحب باقی ماندہ طلبہ کو ان کے وطن بھیجوانے کے لئے مسلسل افسرانِ بالا و زیریں کے رابطے میں رہے۔ انھوں نے ایک پاس بھی بنوایا تھا تاکہ شہر میں کسی بھی جگہ پہنچنا آسان ہوسکے۔ چنانچہ الحمدللہ کافی تگ و دو کے بعد کچھ بچوں کو باقاعدہ بس بک کرکے اور کچھ کو حکومت کی اسپیشل ٹرین سے ان کے وطن بھیجوایا۔


یہ حقیقت بھی لائق ذکر ہے کہ مولانا احمد صاحب کی کوششوں سے میں بھی بذریعہ ٹرک نہایت آرام و سکون کے ساتھ 17 رمضان المبارک کو مفت میں اپنے گھر پہنچ سکا۔ فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔


گوشت پر مکمل بندش تھی، پھر بھی شہر کے اہل خیر نے مہمانانِ رسول کی ضیافت گوشت، مچھلی، مرغا وغیرہ سے حتی المقدور کی۔ یہ خدا کا بڑا انعام ہے۔


یہ سچ بھی لکھنا ضروری ہے کہ بعد میں یہی چیزیں تاریخ بنتی ہیں کہ سب سے پہلے مظاہرعلوم وقف سہارنپور کے طلبہ کو ان کے وطن جانے کی منظوری حاصل ہوئی۔ بلکہ بعد میں دیگر اداروں کو بھی اسی منظوری، تعلق اور مولانا احمد صاحب مظاہری کی وساطت سے جانا ممکن ہوسکا۔


شاید پچھلی تحریر میں لکھ چکا ہوں کہ لاک ڈاؤن میں بھی مشاہرہ جات بلا کم و کاست ملتے رہے اور کچھ نہ کچھ تعمیری کام بھی جاری رہا۔ فللہ الحمد۔


لاک ڈاؤن ختم ہونے پر جب مدرسہ میں واپس پہنچا تو ناظم صاحب نے بتایا کہ:


> جو لوگ کہتے ہیں کہ کورونا کچھ نہیں تھا وہ شاید صحیح علم نہیں رکھتے۔ میں نے جنازوں پر جنازے قبرستان و شمشان گھاٹ کی طرف جاتے دیکھے ہیں اور اس نے ہمارے گھر پر بھی دستک دی تھی۔ بس اللہ کا شکر شاملِ حال رہا کہ اس نے حفاظت فرمائی۔


لاک ڈاؤن کے زمانے میں دارالطلبہ قدیم میں صرف دربان، مؤذن، راقم الحروف اور مفتی محمد راشد ندوی رہ گئے تھے، باقی الحمدللہ سب اپنے گھروں کو چلے گئے تھے۔ مسجد کلثومیہ میں یہ سہ نفری جماعت ایک ایک گز دوری پر کھڑے ہوکر نماز ادا کرتی رہی۔ پھر میرے جانے کے بعد حضرت ناظم صاحب کی ترتیب کے مطابق مفتی راشد بھی گھر پہنچ گئے تھے۔


گاؤں پہنچ کر تو ایسا لگا کہ لاک ڈاؤن ایک خواب اور خیال تھا۔ پورے گاؤں میں معمول کی نقل و حرکت جاری تھی۔ جیسے دیہاتی آپس میں اٹھتے بیٹھتے ہیں یہ سلسلہ اب بھی جاری تھا۔ مسجد میں نمازیں بھی ہوتی رہیں۔ دوریاں اور فاصلے صرف وہاں رہے جہاں سب پڑھے لکھے تھے۔ جہاں سب ان پڑھ اور بے علم تھے وہاں تو کندھے سے کندھا جوڑے ہوئے کھڑے تھے۔


بتاتا چلوں کہ محرم میں تمام عملہ کی تنخواہیں گریڈ کے مطابق کچھ بڑھ جاتی ہیں۔ الحمدللہ لاک ڈاؤن کے باوجود یہ عمل بھی معمول بہا رہا۔


بہار و بنگال کے طلبہ ہی رہ گئے تھے۔ ان ظالموں نے ناظم صاحب سے درخواست کر دی کہ ہمیں دونوں وقت چاول چاہیے۔ قبولیت کی گھڑی تھی، منظور ہوگئی۔ صبح آنکھ کھلتی تو چاول اور رات آنکھ بند ہونے تک چاول ہی چاول۔


ہمارا حال بے حال ہوگیا۔ ہمارے گال سوجنے لگے، آنکھیں چاول کے نشے سے سرشار اور جسم اس "سفیدے" سے سست ہونے لگا۔ کھانے کے وقت خوشی کی بجائے چاول کا نقش و نقشہ نظروں میں گھومنے لگتا۔ اف ظالمو! تم نے یہ کیا فرمائش کردی کہ لاک ڈاؤن میں مجھے بھی ڈاؤن کردیا۔


اہتمام میں طلبہ کے سامنے عملہ کی نہیں چل سکتی تھی، اس لئے میں نے راہ بدلی۔ مقام شکر ہے کہ ایک صاحب کے گھر سے دونوں وقت پکا پکایا کھانا آنے لگا۔ نیز میں تو احتیاط کے ساتھ ناظم صاحب اور مولانا احمد یوشع صاحب کے گھر جا کر کھانے سے لطف اندوز ہوجاتا۔ کبھی دفتر چلا جاتا جہاں حافظ رفاقت صاحب نے حقِ رفاقت ادا کررکھا تھا اور ان کے یہاں محلہ سے "من و سلویٰ" خوب نازل ہوتا تھا۔


بہرحال لاک ڈاؤن نے سکھایا کہ قیامت کا دن کیسا ہوگا:


> فَاِذَا جَآءَتِ الصَّآخَّةُ ﴿33﴾ یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْهِ ﴿34﴾ وَ اُمِّهٖ وَ اَبِیْهِ ﴿35﴾ وَ صَاحِبَتِهٖ وَ بَنِیْهِ ﴿36﴾ لِكُلِّ امْرِئٍ مِّنْهُمْ یَوْمَىٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ ﴿37﴾


"پھر جب وہ کان پھاڑنے والی چنگھاڑ آئے گی۔ اس دن آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا، اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے، اور اپنی بیوی اور اپنے بیٹوں سے۔ ان میں سے ہر شخص کو اس دن ایک ایسی فکر ہوگی جو اسے (دوسروں سے) بے پروا کردے گی۔"


اللہ ناظم صاحب اور مولانا یوشع صاحب کو خوب خوب جزائے خیر سے نوازے کہ انھوں نے حسب سابق اپنے شاندار اخلاق اور خاندانی روایات کو گلے لگایا۔ چھوت چھات کو اپنے دل و دماغ میں گھسنے نہیں دیا۔ ورنہ وہ خود مجھے بھی اپنے گھروں میں گھسنے نہ دیتے۔


(جاری ہے)

(10 ربیع الثانی 1447 ھ)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے