یہ تھے حضرت مولانا محمد سعیدی رحمہ اللہ
(قسط 37)
ناصرالدین مظاہری
انسان کی اصل پہچان صرف اس کے عہدے، مرتبے یا حیثیت سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے اخلاق اور حسنِ سلوک سے ظاہر ہوتی ہے۔ جس شخص کے پاس اختیار ہو اور وہ اپنے ماتحتوں یا خادموں کے ساتھ نرمی، شفقت اور عزت سے پیش آئے، وہی حقیقی لیڈر اور رہنما کہلانے کے لائق ہے۔
ہمارے معاشرے میں ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم بڑوں کے نام تو احترام سے لیتے ہیں، مگر چھوٹوں، خادموں یا ملازمین کو اکثر بے ادبی سے پکارتے ہیں۔ کبھی ان کے نام بگاڑ دیتے ہیں، کبھی ان کو صرف اشارے یا آوازوں سے بلاتے ہیں، اور کبھی تو محض تحقیر آمیز انداز اختیار کرتے ہیں۔ یہ طریقہ سراسر غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ہے۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا کہ چھوٹوں پر شفقت اور بڑوں کا احترام ایمان کا حصہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خدام کے ساتھ کبھی سختی نہ کی، نہ ان کے نام بگاڑے، نہ انہیں تحقیر آمیز الفاظ سے پکارا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
> "میں نے دس سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، اس عرصہ میں آپ نے کبھی مجھے 'اف' تک نہ کہا اور نہ ہی کبھی میرے کسی کام پر ناراضگی کا اظہار فرمایا۔"
یہی اسوہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔
اس سے دلوں میں محبت اور اعتماد پیدا ہوتا ہے۔
ماتحت اپنے کام کو بوجھ نہیں بلکہ خدمت سمجھ کر کرتے ہیں۔
ادارے اور گھروں کا ماحول خوشگوار ہوتا ہے۔
انسان خود اپنے مقام پر مزید وقار حاصل کرتا ہے۔
عہدہ اور حیثیت اللہ کی طرف سے ایک امانت ہے، اور اس امانت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے ماتحتوں کو بھی عزت دیں۔ یاد رکھیں! جو دوسروں کو عزت دیتا ہے، دنیا اور آخرت دونوں میں عزت پاتا ہے۔
حضرت ناظم صاحب اپنے بڑوں کا تو احترام کرتے ہی تھے، اپنے چھوٹوں یا ماتحتوں کا نام بھی عزت اور پیار سے لیتے تھے۔ اب تو مظاہر علوم وقف سہارنپور کے عملہ میں بھی آپ کے بہت سے لائق شاگردان موجود ہیں، مگر ان کا نام بھی آپ ہمیشہ پیار اور القاب کی رعایت سے لیتے اور پکارتے تھے۔
عموماً لوگ مؤذنوں، فراشوں، دربانوں، خاکروبوں، دفتری خدمت گاروں، ڈرائیوروں وغیرہ کا نام آدھے ادھورے لیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں دو چار نام لکھ بھی سکتا ہوں، لیکن دور ایسا چل رہا ہے کہ لوگ اچھی بات کو بھی برداشت نہیں کرپاتے اور پھر بجائے اپنی اصلاح کے دوسرے کی "اصلاح" شروع کردیتے ہیں۔
حضرت ناظم صاحب کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ ہمیشہ عزت سے پکارتے تھے۔ مثلاً:
دفتر تعلیمات میں رجسٹر برداری کی خدمت پر مامور صاحب کو "حافظ یوسف صاحب" کہہ کر پکارتے تھے۔
دفتر اہتمام اور مسجد اولیاء کے خدمت گار کو "حافظ رفاقت"۔
رواق مظفر کے دربان کو "حافظ ممتاز صاحب" ہی سے پکارتے تھے۔
آپ تنابز بالالقاب کے مخالف تھے۔ شاید ہی کسی نے آپ کی زبان سے کسی کا نام غلط یا ادھورا لیتے دیکھا ہو۔
آپ بے شک عالم ربانی، مردِ حقانی اور محدث و منتظم تھے۔ ہر موقع پر آپ قرآن و حدیث کو پیشِ نظر رکھتے تھے۔ ملازمین پر شفقت بھی کرتے اور حقوقِ مدرسہ میں کوتاہی پر ضابطہ کے مطابق عمل بھی کرتے۔ وہ حدیثِ نبوی:
> لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ سَيِّئُ الْمَلَكَةِ
"وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جو خادموں کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے۔"
ہمیشہ آپ کے پیشِ نظر رہتی تھی۔
اس ضمن میں متعدد واقعات ہیں۔ جن کو لکھنے کے لیے ظاہر ہے حسنِ سلوک کے ضمن میں اس بندے کا نام بھی لکھنا پڑے گا جس کی کسی بھی غلطی، کوتاہی یا خیانت پر آپ نے ضابطہ کا بھی خیال رکھا، تعلقات کو بھی حارج نہ ہونے دیا اور مدرسہ کو زیر بار ہونے سے بھی بچا لیا۔ لیکن یہ واقعات اس لیے چھوڑ رہا ہوں کہ نام کا اظہار مناسب نہیں سمجھتا، نہ ہی جرم اور قصور کا تذکرہ دوبارہ کرنا۔
(جاری ہے)
(دس ربیع الثانی چودہ سو سینتالیس ہجری)
0 تبصرے